حالیہ مہینوں میں مغربی ایشیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف سے عرب ممالک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف سے مغربی سفارتکار ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے احیاء میں حائل رکاوٹیں ہٹنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں؛ جس کی وجہ سے تل ابیب کی جعلی ریاست کو تشویش لاحق ہوئی ہے اور اس نے "ابراہیمی امن منصوبے" نامی سازش کے نفاذ کو ملتوی کر دیا ہے۔
عرب کٹھ پتلیاں اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں کہ صہیونیوں کو سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے اور اپنے امن کے تحفظ سے بھی بالکل بے بس ہیں، اسے خود بیرونی امداد کی ضرورت ہے، اور قطعی طور پر وہ کسی اور کی حمایت نہیں کر سکتا اور گرتا گرتے کا سہارا نہیں لیتا اور گرتا گرتے کی مدد نہیں کرسکتا۔
ان تمام حالات اور مراحل کا حاصل یہ ہے کہ ایک طرف سے اسلامی مقاومت کے طاقتور ہونے کے ساتھ اسرائیل کی فیصلہ کن بیرونی مخالفت سامنے آتی ہے اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کے اندر بھی بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جو اسے اندر سے منہدم کر رہے ہیں؛ خواہ بیرونی عوامل نہ بھی ہوں؛ تیسری طرف سے اسرائیل کو تقویت پہنچانے والے عناصر زوال پذیر ہوچکے ہیں۔
دنیا کے یہودیوں کی طرف سے صہیونی نظریئے کی منظم مخالفت کی لہر میں شدت اور مسلسل وسعت آ رہی ہے، اور فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل، یہودی مذہبی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی، چنانچہ یہ مسئلہ بھی اسرائیل کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ نے کہا '' الجیریا خاموش اور دانشمندانہ سفارت کاری کے ذریعے 'فلسطین کاز' پر کردار ادا کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے عرب رہنماوں کے ساتھ بار بار میٹنگز کر رہا ہے تاکہ عرب ایشو ز پر بالعموم اور 'فلسطین کاز' پر بطور خاص عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد ممکن بناسکے۔''
ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے فلسطینیوں کے اتحاد کا سبب "عربیت" تھی لیکن اس کے بعد اسلام ہے جو مجاہدین کو متصل کرتا ہے، جس کا سبب یہ ہے اسلامی انقلاب اسرائیل کا دشمن ہے اور اسرائیل کے بڑے حامی (شاہ) کو نابود کر چکا ہے۔
تمام تر فلسطینی مردوں اور خواتین کا غاصبوں اور قابضوں کے مقابلے میں میدان میں آنا - جو مستقبل میں جدوجہد اور مقاومت کی مزید وسعت اور طاقت کا موجب ہے - بھی صہیونیوں کے زوال کے امکانات کو تقویت پہنچا رہا ہے۔
صہیونی ریاست کی تاسیس کی بنیاد ہی دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی ترغیب، پر رکھی گئی تھی۔ گو کہ صہیونی ایجنسی یہودیوں کی ایک بڑی آبادی کی مقبوضہ فلسطین منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن حالیہ عشروں سے اس ریاست کو معکوس نقل مکانی کا سامنا ہے۔
اسرائیل کی داخلی سلامتی کونسل نے شدید طور پر فکر مندی کا اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ اپنے سپاہ پاسداران سے وابستہ ایک اعلی عہدے دار کی شہادت کا انتقام لیتے ہوئے صہیونی رژیم کے باشندوں کو نشانہ بنائے ۔