اگر ریاست ہائے متحدہ ایک "معمولی" ملک ہوتا؛ اگر وہ دوسرے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے لئے تیار ہوتا، تو شاید یہ قصہ کچھ مختلف ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو اس ناہنجار اور بدشکل مخلوق کے ساتھ زندگی گذارنا پڑ رہی ہے جس کو "بین الاقوامی" تعلقات کا نام دیا گیا ہے اور اس مخلوق کو امریکہ نے خلق کیا ہے۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی ترین مسئلہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گا دنیا کی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں مجھے یقین ہے کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو عراق، شام اور یمن کے بحران وجود میں نہ آتے۔
نوآم چامسکی نے کہا: ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
بہائیت کو پہچاننے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یک، ہم علمی اور سیاسی پہلو سے گفتگو کریں، دوسرا ہم علاقے کا گہرا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ بہائیت کے جال میں کون کون لوگ پھنسے ہیں۔
ہندوستان میں کسی بھی طرح کا مذہبی اختلاف چاہیے وہ مسلمانوں کے اندر آپسی طور پر ہو یا ہندو مسلم پلیٹ فارم پر ہو، یقینا صہیونیت کے فائدے میں ہے۔
ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آيا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔
ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔
میری نظر میں ہندوستان کے اسلامی سماج کی اہم ترین ذمہ داری، خودشناسی ہے، معرفت ہے اپنی نسبت اور اپنے دشمن کی نسبت، ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ تاریخ کے اس دور میں وہ کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں اپنے دین کی ترویج کے لیے، اپنے اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اور اپنے مقام و منزلت کو پائیدار رکھنے کے لیے۔
اٹزیون نے اس مکالمے میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے اور ایران کی طرف سے ایٹم بم کے حصول کی کوششوں اور تل ابیب پر ایٹمی حملے جیسے موضوعات کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ سب محض ایک سیاسی نعرہ ہے، اور حتی اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہو بھی، وہ اسے استعمال نہیں کرے گا۔