اس مضمون میں خواتین کے حقوق اور احکام کے حوالے سے یہودی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے، جن میں سے کچھ احکام اسلام سے مطابقت رکھتے ہیں چنانچہ یہ ایک منصفانہ تنقید کی حیثیت رکھتا ہے۔ / جہاں بھی توریت کا نام آتا ہے مقصود تحریف شدہ توریت ہے۔
یہ لوگ ہر قوم میں پہنچ کر ان ہی کے بھیس میں اور ان ہی کے طرز زندگی اپنا کر، ظاہر ہوتے ہیں، اور اپنے افکار اعتقادات کو اسی قوم کے لوگوں کی زبان سے عوام میں پھیلا دیتے ہیں؛ اپنے عزائم [اور خفیہ دسیسوں) کو ان ہی لوگوں کی زبان سے بیان کرتے ہیں۔
یہودیوں نے بڑی چالاکی سے قرآن کی تنقید کو رد کرنے کے لئے اس طرح کے افسانے گھڑ لئے اور انہیں مسلمانوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ بعدازاں مسلمان بھی بیٹھ کر ایک دوسرے کو عوج بن عنق کی داستان سناتے تھے، عمالقہ کی غیر معمولی جسامت میں مبالغہ آرائیاں کرتے تھے؛ اور ہمیشہ اس حقیقت سے غافل رہے کہ یہودیوں نے ان افسانوں کے ذریعے قرآن کو جھٹلایا تھا۔
قرآن کی گواہی کے مطابق، یہودی تحریف اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔
یہودیوں نے اپنے افکار و عقائد کو "حدیث کے سانچے میں ڈھال کر" مسلمانوں کے درمیان پھیلا دیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو سود پر پیسہ دینے اور ان سے جتنا ممکن ہو سود کمانے کا جواز حتیٰ یہودیوں کی فقہ میں موجود ہے اور یہودی ربیوں “یعقوب بن مہ یر” اور ” داوود کہمی نور بونی” نے اس بارے میں فتاویٰ بھی دئے ہیں۔
قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو جہنم کی آگ ہمیں چند گنے چنے دنوں کے سوا، چھو تک نہيں سکے گی۔
دلچسپ یہ ہے کہ تاریخی مطالعات میں کبھی بھی صہیونیوں اور نازیوں کے درمیان پائے جانے والے اس گہرے رابطے کی طرف اشارہ نہیں ہوتا اور صرف نازیوں کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی فضا بھی خود صہیونیوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی۔
یہ کمیٹی امریکہ کی حکومت میں اعلی پیمانہ پر اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اقوام متحدہ میں تجویز تقسیم کی منظوری کے سلسلہ میں اپنے نفوذ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ۔