صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہے.
ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آيا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔
عیسائیوں کو قتل کرنا یہودیوں کے مذہبی واجبات میں سے ہے اور اگر یہودی ان کے ساتھ کوئی پیمان باندھیں تو اس کو وفا کرنا ضروری نہیں ہے، نصرانی مذہب کے روساء پر جو یہودیوں کے دشمن ہیں ہر روز تین مرتبہ لعنت کرنا ضروری ہے۔
بہشت یہودیوں سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن عیسائیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
گوکہ یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔
یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔
سنہ ۱۱۷۱ع میں فرانس کے شہر بلوئس (Blois) میں عید فصح کے ایام میں ایک عیسائی بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ یہودیوں نے اس بچے کا خون اپنی دینی رسومات میں استعمال کرنے کے لئے نکال لیا تھا۔
برطانیہ فرانس اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں یہودیوں نے عید فصح کے موقع پر عیسائی بچوں کو اغوا کر کے ان کا خون نکال کر چوس لیا تھا۔ درج ذیل تحریر میں اس کے چند نمونے پیش کئے گئے ہیں۔
یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔