میرے خیال میں اسرائیل کا یہ اقدام اس کے لئے بہت سارے آثار اور خطرناک عواقب کا باعث بنے گا۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ خطرناک اثر اسرائیل کی اپنی پوزیشن، اور یورپ و امریکہ میں اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ پر مرتب ہوگا۔
صہیونی دشمن خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی فوجی طاقت میں اضافے سے شدید وحشت کا شکار ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک علاقائی جنگ شروع ہونے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین کی فضا ہزاروں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے بھر جائے گی جو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر نقطے کو نشانہ بنائیں گے
برطانیہ کے شکم میں بھی اپنی ناجائز اولاد کا درد ایک مرتبہ پھر جاگا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کی ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے مقاومت فلسطین کی پہچان اور غزہ میں حاکم حماس کو دہشت گرد تنظیم کے ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی قراردار پیش کی ہے۔
عرب وکلاء اور قانون دانوں نے کہا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں میں سب سے خطرناک مسئلہ "حمایت کو جرم قرار دینا" ہے کیونکہ "حمایت" کی اصطلاح میں بہت سی سرگرمیاں شامل ہیں۔
ریاست مدینہ کے رکھوالوں کو مستقبل اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ ماضی میں پاکستان جس دہشتگردی کا شکار رہا ہے، اس سے عبرت حاصل کریں ورنہ ضیاء الحق کا انجام سب کے سامنے ہے۔ مذاکرات تو فریق کے ساتھ ہوا کرتے ہیں، مذاکرات کی میز پر جنونی قاتل نہیں بیٹھا کرتے۔
سینما کے میدان میں بھی بین الاقوامی صہیونیت اقدار کو مجروح کرکے، اور فحاشی، عریانی، بدعنوانی، تشدد اور پیسہ پرستی کو فروغ دے کر دنیا والوں کو غفلت اور زندگی سے اکتاہٹ کی طرف دھکیل کر اپنے معاشی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اب بھی پولیس نے سردیاں شروع ہونے سے پہلے کشمیری عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے مذکورہ 4 کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے، جو بیگناہ تھے، ایک ڈاکٹر تھا، دوسرا کلینک پر ملازمت کرتا تھا، ایک دکاندار تھا، چوتھے کو پاکستانی قرار دیدیا گیا۔ آخر بھارت سرکار کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر بے گناہ کشمیریوں کو موت کی وادی میں دھکیلتی رہے گی؟؟
ہندوستان میں سیاسی روّیے اور سماجی قدریں تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہیں ۔اس برقی تبدیلی پر ملت کے دانشوروں اور قوم کے رہنمائوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر شکاری کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتے ۔
ایک طرف سے مأرب کے تزویراتی علاقے کے مرکز کی طرف یمنی مجاہدین اور افواج کی تیزرفتار پیشقدمی اور جھڑپوں کے خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات کے بعد سعودی قبضے سے اس شہر کی آزادی کے لیے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے جس کے بعد سفارتی کوششوں میں ناکام امریکہ نے اس جنگ کے خاتمے اور مأرب پر سعودی قبضہ بحال رکھنے کے لئے متبادل روشوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست مأرب سمیت یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ کی فتوحات سے تشویش ظاہر کر رہی ہے۔