ایک فلسطینی خبر رساں ادارے نے اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل اور لبنان نے تکنیکی طور پر سرحد کھینچنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ عیسائی جماعت جو یہود و نصاریٰ کی یکجہتی کو شدت پسندانہ طریقے سے ترویج کرتی ہے اس بات کی تلاش میں ہے کہ اسلام کو دونوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مشترکہ دشمن کے عنوان سے متعارف کروائے۔ انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے اسلام، عربوں اور مسئلہ فلسطین کی نسبت امریکہ کے لوگوں کی نگاہ کو تبدیل کر دیا۔
امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکہ ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے، سخت مخالف کر رہے ہیں۔
ابوالغیظ نے "اسرائیل" پر دباؤ ڈالنے کی اہمیت پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی حوالوں کے مطابق حقیقی امن عمل کے فریم ورک کے اندر سنجیدہ مذاکرات کی طرف لوٹے۔
فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے آج (جمعرات) کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنے ملازمین کے موبائل فون ہیک کر لیے ہیں۔
ایک طرف سے مأرب کے تزویراتی علاقے کے مرکز کی طرف یمنی مجاہدین اور افواج کی تیزرفتار پیشقدمی اور جھڑپوں کے خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات کے بعد سعودی قبضے سے اس شہر کی آزادی کے لیے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے جس کے بعد سفارتی کوششوں میں ناکام امریکہ نے اس جنگ کے خاتمے اور مأرب پر سعودی قبضہ بحال رکھنے کے لئے متبادل روشوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست مأرب سمیت یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ کی فتوحات سے تشویش ظاہر کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں صہیونی حکومت کے سفیر نے ایک تقریر میں افریقی ممالک کے بارے میں اسرائیل کی روش کا راز کھول دیا۔
بحرین کی یہودی سفیر «هدی عزرا نونو» کی طرف سے ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بحرین میں یہودیوں کو رہنے کی دعوت دینے کے بارے میں جو تبصرے ہیں، وہ آیت اللہ عیسیٰ قاسم کی گزشتہ مئی کے انتباہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔