یہودیوں کے جرائم کی وسعت اور ان کے مظالم و جرائم سے کافی عرصہ گذر جانے کے پیش نظر بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ کچھ زیادہ دور نہ ہو؛ اور سخت لڑنے والے ثابت قدم جوانوں کا ظہور قریب ہو اور ہم سب شاہد ہوں عنقریب اس ریاست کی نابودی اور قبلہ اول اور قدس شریف کی آزادی کے۔
اس مولف کے علمی کارناموں میں “ہولوکاسٹ انڈسٹری” (The Holocaust Industry) معروف ترین اور اہم ترین علمی کارنامہ ہے۔ فینکلشٹائن اس کتاب میں ہولوکاسٹ کے موضوع پر اپنی تحقیق کے مقصد کو بیان کرتے ہیں اور یہودی نسل کشی کو ایک انڈسٹری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہے.
ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آيا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔
عیسائیوں کو قتل کرنا یہودیوں کے مذہبی واجبات میں سے ہے اور اگر یہودی ان کے ساتھ کوئی پیمان باندھیں تو اس کو وفا کرنا ضروری نہیں ہے، نصرانی مذہب کے روساء پر جو یہودیوں کے دشمن ہیں ہر روز تین مرتبہ لعنت کرنا ضروری ہے۔
بہشت یہودیوں سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن عیسائیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
سنہ ۱۱۷۱ع میں فرانس کے شہر بلوئس (Blois) میں عید فصح کے ایام میں ایک عیسائی بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ یہودیوں نے اس بچے کا خون اپنی دینی رسومات میں استعمال کرنے کے لئے نکال لیا تھا۔
یہودیوں نے بنی اسماعیل کا تعاقب یعقوب علیہ السلام کے فورا بعد نہیں تو کم از کم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد، ضرور شروع کیا اور یہ تعاقب ابتدائے اسلام میں مختلف لبادوں کے پیچھے جاری رہا اور رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد اس نے اپنا بھیس بدل دیا۔
یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔