امریکی پروفیسر نوآم چامسکی: ایران سے نفرت کی جڑیں امریکی ثقافت میں بہت گہری ہیں
فاران: امریکی پروفیسر نوآم چامسکی نے ۷ اگست ۲۰۱۸ کو ایریزونا یونیورسٹی میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مختلف مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا لیکن اس انٹرویو میں ایران کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات اہم ہیں جن کا ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
ان سے پوچھا گیا کہ اگر ۲۰۲۰ع کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جماعت کے سیاستدان امریکی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ان کا موقف ایران کے خلاف کچھ نرم ہوگا؟
نوآم چامسکی نے اس سوال کے جواب میں کہا: ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
انہوں نے امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئیں پابندیوں کے اثرات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: امریکی حکومت یہ سوچتی ہے کہ اگر سخت سے سخت پابندیاں لگائی جائیں تو ایران میں اسلحے کی تیاری کا سلسلہ رک جائے گا، ملک کے اندر نام نہاد جبر اور سرکوبی کا خاتمہ ہوگا اور مشرق وسطی میں ایران کی مداخلت میں کمی آئے گی۔ میں امریکی عہدیداروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں ذرہ برابر حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرق وسطی کے رجعت پسند ترین اور قدامت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کی ہم (امریکی) حمایت کر رہے ہیں۔
چامسکی کا کہنا تھا کہ اگر ایران کا سعودی عرب سے موازنہ کرایا جائے تو ایران کی جمہوری سطح ناروے کے برابر ہے۔ مشرق وسطی میں تشدد کے لحاظ سے بھی سعودی عرب اور امارات کے اقدامات ـ جن کی ہم حمایت کررہے ہیں ـ ہر چیز سے بدتر ہیں۔
پوچھا گیا کہ امریکہ کے عالم سیاست کے دانشور و سیاستدان ایران سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اور ان کی نفرت کی جڑ کہاں پیوست ہے؟ تو انھوں نے کہا: اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ سنہ ۱۹۷۹میں ایران نے (انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے) استقلال اور خودمختاری کی سمت قدم بڑھایا؛ اور اس سے بڑھ کر ایرانیوں نے ایک مطلق العنان حکمران ـ جسے امریکہ نے متعین کیا تھا اور امریکی مفادات کی اساس پر اس ملک پر حکمرانی کررہا تھا ـ تخت شہنشاہی سے اتار پھینکا؛ اور ہمارے سیاستدان اور سیاست کے بارے میں سوچنے، بولنے اور لکھنے والے کبھی بھی اس واقعے کے نہیں بھولیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد امریکہ نے ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کی جبکہ عراق کا حملہ تباہ کن تھا۔ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کی امریکی حمایت ایسے حال میں جاری رہی کہ عراق نے وسیع سطح پر کیمیاوی اسلحہ استعمال کیا اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے اسباب فراہم کئے۔
انھوں نے کہا: عراق ایران کے خلاف کیمیاوی اسلحہ استعمال کررہا تھا اور لاکھوں انسان کو قتل کررہا تھا لیکن امریکہ نے جنگ کے پورے عرصے میں عراق کے ان اقدامات کی حمایت جاری رکھی۔
تبصرہ کریں