ایران اور سعودی عرب تعلقات کی کیا اہمیت ہے؟ / ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کیوں ناکامی کا شکار ہوں گے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: محمد بن سلمان کے دورہ ترکی اور ایران-سعودی سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے ہونے والے مذاکرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایران-سعودی تعلقات کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: دو پڑوسی ممالک ہونے کے ناطے ایران اور سعودی عرب کے تعلق مکمل طور پر منقطع نہیں ہو سکتے؛ کیونکہ ہمارے درمیان حج کا موضوع بہت اہم ہے اور سعودیوں کے اوپر حج کے حوالے سے مسلم ممالک کی طرف سے کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہم اس قاعدے کے ذیل میں آتے ہیں۔ بطور مثال سعودی قلمرو میں پچھتر لاکھ اثناعشری، زیدی اور اسماعیلی شیعہ آباد ہیں جن کا ایران کے ساتھ اعتقادی تعلق ہے کیونکہ عالم تشیّع کا مرکز ایران میں ہے۔ چنانچہ دو ملکوں کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ بہت سے سعودی شہریوں [خواتین و حضرات] نے ایرانیوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں، اور اس قسم کے تعلق کبھی بھی منقطع نہیں ہو سکتے بلکہ خود بخود بحال رہتے ہیں اور بحال رہے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ رابطے سماجی زمرے سے باہر ہیں اور آمد و رفت اور مناسک حج کو مذاکرات میں بھی جاری رکھا جا سکتا ہے؟ جی ہاں، سلامتی کے میدان میں، ہم تعلقات رکھ سکتے ہیں، اقتصادی مسائل کے میدان میں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، اور خصوصی طور پر مشترکہ گیس کے کنوؤں کے معاملے میں، ہمارے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔
سوال: کیا موجودہ سفارتکاری ماضی کی طرح ہے یا یہ کسی دائرے کے اندر اور نقطۂ نظر کی تبدیلی پر مبنی ہے؟
جواب: ایران-سعودی تعلقات کئی عناصر پر مشتمل ہیں۔ مثلا مذہبی حوالے سے ملک حجاز کے شیعہ ایران آنا چاہتے ہیں اور ہم بھی حج اور عمرہ کے لئے حجاز کا سفر کرتے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے، ہمارے کچھ مشترکہ گیس اور تیل کے ذخائر ہیں، حتی کہ ہماری سلامتی بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور باہمی تعلق کا باعث بنتی ہے۔ اور بہت سے دوسرے مسائل بھی جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔ محمد بن سلمان ایک عملیت پسند انسان ہے جو اپنے مفادات اور بہتر پوزیشن کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ ایران خطے کا طاقتور ملک ہے اور بن سلمان کی بہتر پوزیشن اس طاقت کے ساتھ بہتر تعلقات پر موقوف ہے۔ اس کے باوجود کہ باہمی سفارتی تعلق کو سعودیوں نے منقطع کر لیا ہے، جبکہ ہم تعلقات کے خواہاں تھے۔ بن سلمان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ دوبارہ بحالی کے مسئلے کو ایک قیمتی سامان تجارت کے طور پر ایران کو فروخت کر سکے گا، جبکہ ہمارے خیال میں یہ دو طرفہ ضرورتوں کا مسئلہ ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ صرف ایران ہی کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بالآخر بن سلمان کو بھی ایران کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی طرف جانا پڑے گا۔
سوال: بحیرہ قزوین کے ساحلی ممالک کے سربراہی اجلاس میں ایران کی علاقائی سفارت کاری کے مواقع کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: بحیرہ قزوین (Caspian Sea) ایران اور اس کے ساحلی ممالک کے لئے ایک مشترکہ اقتصادی خطہ ہے، اور ہماری کوشش یہی ہے کہ یہ خطہ اپنے اقتصادی رجحان کو محفوظ رکھے اور سیاسی، فوجی اور سلامتی کے حوالے سے باہمی تنازعات سے دور رہے۔ حالیہ مہینوں میں ایران اور مذکورہ ممالک کے درمیان منعقدہ معاہدوں کے بدولت ایران سمیت تمام ممالک کو ایک بہت اچھا موقع ملا۔ ترکمانستان کے ساتھ اقتصادی حسابات بے باق کرنے کے حوالے سے اختلافات تھے، جو حل ہوئے اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ مل رہا ہے۔ تاجکستان کے ساتھ ہمارے کچھ مسائل تھے جو حل ہوئے، ایران اور آذربائی جان کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں جو ناکام ہوئی اور دوطرفہ تعلقات ایک منطقی دائرے میں، قائم ہوئے۔ ایران-روس تعلقات کو فروغ ملا، جس کے تحت روس دو طرفہ اقتصادی تبادلات کو ساڑھ چار ارب ڈالر سے 20 ارب ڈالر تک بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ واقعات نے بتا دیا کہ بحیرہ قزوین کے ساحلی ممالک کے علاوہ حتیٰ تاجکستان بھی، جو بحیرہ قزوین کے ساحل سے دور اور رکن ممالک میں شامل نہیں ہے، من حیث المجموع اس نتیجے پر پہنچے ہیں بحیرہ قزوین سب کے لئے ایک مشترکہ اقتصادی علاقے کے طور پر کردار ادا کرتا رہے۔
سوال: انقرہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہو چکے ہیں اور حال ہی میں امیر عبداللہیان نے شام کے مسائل کے حوالے سے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ آپ اس پیش رفت کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیا آپ کے خیال میں اسرائیل-ترکی تعلقات ایران کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
حواب: سنہ 1922ع میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ترکی نام کا ملک معرض وجود میں آیا، جبکہ فلسطین انگریزوں کے قبضے میں تھا اور اسرائیل غیر رسمی طور پر معرض وجود میں آ چکا تھا جو یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین بھجوانے میں مصروف تھا۔ اور ترکی نے ان ہی ایام میں اسرائیلیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے چنانچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطے کے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کبھی گہرے نہیں ہوئے مثلا مصر اور اسرائیل کے تعلقات کے کا سرکاری تعلق 44 سال پرانا ہے لیکن مصر اور اسرائیل آجع کہاں کھڑے ہیں؟ صہیونی ریاست کے حکمرانوں اور مصر کے آمروں کے درمیان تعلق برقرار ہے لیکن مصری عوام نے کبھی بھی اس تعلق کو تسلیم نہیں کیا اور مصری فوج نے کبھی بھی اسرائیل کو دوست نہیں سمجھا، اور اب تو اسرائیلی زوال کے آثار عیاں ہونے کے بعد غاصب ریاست کے ساتھ تعلق کے حوالے سے مصری حکومت کے تحفظات میں اضافہ ہؤا ہے۔
صہیونی ریاست پوری دنیا پر یہودی نسلی برتری کے تصور پر استوار ہے، وہ نیل سے فرات تک کے علاقے کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے؛ اور اس صورت میں دوستی اور برابر کے تعلق کا تصور ہی ممکن نہیں چنانچہ زور زبردستی کے ذریعے آقا اور غلام کا تعلق ہی قائم ہو سکتا ہے اور غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کے دعویدار لوگ محض یہودیوں کے خدمت گزار ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ اس طرح کی نسل پرستانہ سوچ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی حکومت یا ملک و قوم کسی بھی حکومت یا ملک و قوم کے ساتھ گہرے برادرانہ تعلقات قائم کر ہی نہیں سکتی؛ اور تعلقات یا دوستی کا نعرہ در حقیقت استحصال کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔
چنانچہ اسرائیل اس علاقے میں کسی کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کرنے سے عاجز ہے؛ کیونکہ یہ ریاست نسل پرست ہے، جعلی ہے، مسلمانوں اور عیسائیوں کی دشمن ہے، دنیا کے تمام انسانوں کو یہودیوں کے غلام و خادم سمجھتی ہے؛ نہ اس کے پاس کوئی قوم ہے نہ ہی سرزمین اور نہ ہی جمہوری حکومت۔ اس ریاست نے فلسطین کو غصب کر لیا ہے جہاں فلسطینیوں کی آبادی غاصب یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے اور ملینوں فلسطینی ملک سے نکال دیئے گئے ہیں جو واپسی کے خواہاں ہیں؛ اور اگر کسی دن یہاں آزادانہ انتخابات ہوئے تو حکومت فلسطینیوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی لیکن یہودی ایسا نہیں کرنے دیتے ہیں۔ جناب اردوگان نے اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لئے اس ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں، جو دیر پا نہیں ہیں اور پھر ترک عوام مسلمان اور فلسطینی کاز کے حامی اور صہیونیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر مبنی اردوگانی پالیسی کے خلاف ہیں۔ چنانچہ، جیسا کہ عرب حکمرانوں کی اسرائیل نوازی صہیونی غاصبوں کے ساتھ عرب عوام کی دوستی کے مترادف نہیں ہے، اردوگان کی یہود نوازی کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ ترک عوام صہیونیوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سعد اللہ زارعی کے ساتھ جام جم آنلاین کا انٹرویو
تبصرہ کریں