تہران کے بازو فلسطینی تحریکوں اور گروہوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک (حرکۃ الجہاد الاسلامی فی فلسطین) کے ایک راہنما احمد المدلل کی العالم کے ساتھ بات چیت کا دوسرا حصہ:
بلا شبہ ایران کے امام سید علی خامنہ ای سمیت، ایران کے تمام راہنماؤں نے مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی پالیسیوں کو جاری رکھا ہؤا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر، وہ مقاومتی تحریکوں سے رابطے میں ہیں اور فلسطین کی مقاومتی اور غیر مقاومتی جماعتوں اور تنظیموں اور گروہوں کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور تہران کے دروازے ان کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ کیونکہ فلسطین کا مسئلہ ایران کے راہنماؤں کے ہاں اصلی اور بنیادی مسئلہ ہے۔ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی وفات کے بعد، ایرانی راہنماؤں کا رویہ فلسطین کے ساتھ نہ صرف بدلا نہیں ہے، بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ بالخصوص فلسطینی قوم اور غاصب صہیونی ریاست کے درمیان جنگ کے سائے میں تحریک اسلامی جہاد کی قیادت اور فلسطین کی دوسری مقاومتی تنظیموں کی حمایت کے لئے نئے نئے راستے اور روشیں تلاش کرتے ہیں اور انہیں تقویت پہنچاتے ہیں۔
– ایران ظالمانہ پابندیوں کے باوجود خطے کی قوموں کے ساتھ اپنا تعلق محفوظ رکھا
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مقاومتی تحریکوں کے تحفظ میں امام خامنہ ای مثالی کردار ادا کررہے ہیں۔ امام خامنہ ای ایران کی ساکھ اور صہیونی-امریکی تسلط پسندی کے مقابلے میں محور مقاومت (یعنی محاذ مزاحمت) کی پاسداری میں کامیاب کردار ادا کیا ہے۔ آپ نے ایرانی عوام کے ساتھ سماجی رابطے کے ذریعے انہیں اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ ہمیں آج حکومت – بالخصوص رہبر انقلاب امام خامنہ ای – کے ساتھ ایرانی عوام کی نہایت عظیم یکجہتی کو آشکارا دیکھ رہے ہیں اور ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی استکبار – خاص طور پر امریکہ – کی طرف کی وحشیانہ پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی طاقت میں زبردست اضافہ کیا اور خطے کی اقوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو تحفظ فراہم کیا۔
– ایران خطے میں عالمی استکبار کا ڈراؤنا خواب
ایران کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی غرض سے امریکی سی آئی اے اور صہیونی ریاست نیز مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں اور ایرانی کمانڈروں کے مسلسل تعاقب کے باوجود، یہ ملک عسکری لحاظ سے بھی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی، ان سازشوں سے متاثر نہیں ہؤا بلکہ انہیں ناکام بنایا اور اس لمحے تک خطے میں عالمی استکبار و استعمار کے لئے ڈراؤنا خواب بنا ہؤا ہے۔ یہ ایران ہے جس نے صہیونی-امریکی تسلط پسندی کے مد مقابل قدم اٹھایا ہے اور ہم اس حقیقت کو محور مقاومت اور محاذ مزاحمت میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
– اسلامی انقلاب، عرب اور اسلامی اقوام کے لئے عملی نمونہ
اسلامی انقلاب بنیادی طور پر مقاومت کی بنیاد پر شروع اور کامیاب ہؤا ہے۔ اور یہ منصوبہ عربی اور اسلامی اقوام کے لئے عملی نمونہ بن چکا ہے، کیونکہ یہ انقلاب آمریت اور استبدادیت کے خلاف جدوجہد میں آگے آگے تھا اور اس نے عربی اور اسلامی عزم و ارادے کو اسی سلسلے میں جگا دیا اور فلسطینی عوام سمیت عرب اقوام کے لئے زندہ نمونے کے طور پر ابھرا۔ میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اس لمحے تک، فلسطینی عوام بدستور صہیونی غاصبوں کے خلاف نبردآزما ہیں۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ محور مقاومت کے ارکان اور اجزاء کس طرح اکٹھے، متحد اور یک جہت ہیں اور خطے میں امریکی تسلط پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے، کس قدر اعلیٰ سطح پر آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ امریکہ اور غاصب اسرائیلی ریاست، صرف اور صرف ایک منصوبے پر عمل کرنے کے درپے ہیں اور وہ ہے صہیونی منصوبے کو خطے میں مستحکم کرنا؛ جبکہ اس منصوبے کا مقصد عالم عرب اور عالم اسلام کی اتہاہ میں صہیونی ریاست کو ایک فطری وجود کے طور پر تسلیم کروانا ہے۔ امریکہ ایران، شام، عراق، یمن اور خطے میں فلسطینی کاز کی حامی دوسری اقوام سے دشمنی کرکے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہے؛ لہذا ہم کہتے ہیں کہ محور مقاومت کی یہ عظیم پیشقدمی – جو کہ صہیونی-امریکی محاذ کی عظیم تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے، – خطے میں لڑائی – بالخصوص یہودی ریاست کے خلاف جنگ – کے نئے قواعد متعارف کرا چکی ہے اور ان قواعد کو مستحکم کر لیا ہے۔
– قدس شریف (قبلۂ اول) قبضہ عرب اور اسلامی دارالحکومتوں پر قبضہ ہے
ہم فلسطینی مقاومت کی حمایت کے سلسلے میں ایران کے اصولوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے متعارف کردہ اصولوں میں سے ایک “فلسطینی کاز” کی حمایت کا اصول ہے۔ کیونکہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کے نزدیک، سرزمین فلسطین پر قبضہ، عربی عزم و ارادے پر دشمن کے قبضے کا تسلسل ہے اور جب تک قدس شریف اور قبلۂ اول پر غاصب ریاست کا قبضہ جاری رہے گا، عربی اور اسلامی ممالک کے دارالحکومت بھی مقبوضہ شمار ہوتے ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جس پر امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) مسلسل زور دیتے تھے؛ اور ہم نے یہ بات بھی مختلف کانفرنسوں میں رہبر معظم امام خامنہ ای کی زبان سے کئی بار سنی ہے کہ “جو بھی قطب نما قدس شریف کی طرف نہ پلٹے [اور قبلہ اول کا پتہ نہ دے] وہ مشتبہ اور مشکوک ہے اور جب تک کہ قدس شریف پر قبضہ جاری رہے گا، تمام تر عرب اور اسلامی دارالحکومتیں بھی کو مقبوضہ شمار ہونگی”۔
– ہم آپ کے موقف کے ساتھ ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہونے والی سازشوں کے باوجود، ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے۔ ایران ان ہی اصولوں پر کاربند ہے جن کی رو سے اس نے مظلوم اقوام – بالخصوص فلسطین – کی مدد و حمایت کا آغاز کیا تھا۔
مسئلہ فلسطین آج بھی ایرانیوں کے دلوں میں ہر دور میں موجود ہے اور ایرانی رہنماؤں نے انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد یہ ذمہ داری قبول کی اور مالی، سیاسی اور عسکری مدد فراہم کرکے فلسطینی مقاومت کو وسعت دی۔ فلسطینی مقاومت خود ہی اس حقیقت کی گواہ ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ ایران کی شکرگزار ہے۔ کیونکہ ایران تاریخ کے اس انتہائی دشوار دور میں فلسطینی عوام کا واحد حامی اور پشت پناہ ہے۔
– مشروعیت کا دار و مدار غاصبین کے ساتھ سازباز نہ کرنے پر ہے
اسلامی انقلاب کی فتح کے چالیس سال بعد بھی، آج ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو فلسطینی قوم اور مقاومت کے تمام دھڑوں کو ہتھیاروں اور عسکری اور مالی امداد اور مختلف قسم کے ضروری وسائل اور تربیتی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ہم ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے شکرگزار ہیں اور عربی اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر انہیں عوامی مشروعیت (Popular Legitimacy) چاہئے تو ان پر لازم ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلق توڑ دیں اور اپنے قطب نما کا رخ قدس شریف اور قبلۂ اول کی طرف پلٹا دیں؛ وہی کام جو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اور ایران کے راہنماؤں نے کرکے دکھایا۔ ایران کو تباہ کرنے کی تمام تر منصوبوں اور اس کے خلاف عظیم سازشوں کے باوجود، آج ایران خطے میں صہیو-امریکی محاذ کے خلاف ایک حقیقی اور مضبوط مقاومتی مرکز ہے۔
جاری۔۔۔
تبصرہ کریں