جزیرہ نمائے عرب کے شیعہ علاقوں کی افسوسناک صورت حال / شیعہ سماجی تحفظ سے محروم

آل سعود کا دعوی ہے کہ منطقہ الشرقیہ کے شیعہ بھی ایران کے حامی ہیں، اور یہ لوگ سنیوں کو ماریں گے اور اگر ایران اور سعودیہ کے درمیان جنگ شروع ہو جائے تو یہ لوگ سعودی ریاست کے خلاف ایران کی حمایت کریں گے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: الشرقیہ کے شیعہ علاقوں نیز جنوبی صوبوں میں زیدیوں اور اسماعیلیوں کے اکثریتی علاقوں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے؟
جواب: من حیث المجموع الشرقیہ اور جنوب میں امتیاز رویے بہت نمایاں ہیں؛ روزگار کے مواقع کے لحاظ سے بھی اور علاج معالجے اور تنخواہوں کے لحاظ سے بھی۔
القطیف بڑا شہر ہے لیکن اس میں آج تک ایک یونیورسٹی نہيں ہے اور اس علاقے کے طالب علموں کو تعلیم کے لئے الجبیل اور الدمام جانا پڑتا ہے۔ القطیف کا کمشنر اور پولیس سربراہ غیر مقامی ہیں۔ ہر جگہ سے انتہاپسند سنیوں یا سلفیوں یا تکفیریوں کو لایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ القطیف یا یا الاحساء کے شیعہ علاقوں کے کسی ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر کو بھی مقامی اور شیعہ نہیں ہونا چاہئے۔
القطیف میں حتی کہ معاشی صورت حال بھی بالکل مختلف ہے۔ یہاں بعض شہری جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ سماجی تحفظ کا بیمہ (Social Security Insurance) صحرا نشینوں کو بھی دیا جاتا ہے مگر قطیف کے شیعہ سماجی تحفظ سے محروم ہیں۔
جنوبی علاقوں میں سلفیوں اور وہابیوں کی آبادکاری
جنوبی علاقوں کے باشندوں کو بھی دیوار سے لگایا گیا ہے، نہ انہیں خدمات فراہم کی جاتی ہیں، نہ مکان، نہ ہی صحت اور علاج معالجے کی سہولیات۔ آپ جب نجران اور جیزان میں داخل ہوتے ہیں تو مٹی اور گارے کے بنے ہوئے مکانات دیکھتے ہیں۔ گوکہ ان علاقوں میں شاندار محل بھی نظر آتے ہیں جن کے مالک اور مکین مقامی نہیں ہیں۔
سعودی حکمرانوں نے یمن اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی؛ کیونکہ نجران اور جیزان کے قبائل درحقیقت یمنی قبائل ہیں جن میں “یام”، “الصقور” اور چند دوسرے قبائل آباد ہیں جو زیدیہ اور اسماعیلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری طرف سے حکمران سعودی قبیلہ جنوبی علاقوں میں سلفیوں اور وہابیوں کو آباد کر رہا ہے۔ الشرقیہ کے علاقے میں بھی یہی صورت حال ہے؛ بطور مثال االاحساء میں سڑکیں بنانے سے اجتناب کیا گیا ہے اور اسکول اور اسپتال بنانے کا اہتمام نہيں کیا جاتا؛ البتہ یہاں کے سنی باشندوں کا حال بھی اہل تشیّع سے بہتر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر الاحساء میں ایک “الصالحیہ” نامی قبیلہ ہے جس میں سنی مذہب کے پیروکار رہتے ہیں، جہاں خدمت رسانی کی صورت حال بہت خراب ہے، اور جب آپ اس محلے میں قدم رکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ گویا کسی قحط زدہ افریقی ملک میں آئے ہوئے ہیں۔ وہ اچھی خاصی سہولیات دے کر سلفیوں کو الاحساء میں بسا رہے ہیں تاکہ آبادی کا توازن بگڑ جائے اور شیعہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے؛ حالانکہ اس وقت الاحساء کی 80 فیصد آبادی کا تعلق مذہب شیعہ سے ہے اور 20 فیصد اعتدال پسند سنی ہیں۔
سوال: کیا آپ کی بات کا مطلب یہ ہے کہ شاہ سلمان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد القطیف کے عوام کو سوشل سیکورٹی کے تحت بیمہ نہیں دیا گیا ہے؟ کیا سلمان بن عبدالعزیز کے پانچ سالہ دور میں الشرقیہ کے عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی آئی ہے
جواب: ایم بی ایس کے ولی عہد بننے کے بعد – شہری اور سماجی سہولیات دینا تو درکنار – مشرقی علاقوں میں گرفتاریوں اور پھانسی کی سزاؤں میں نیز جبر و ظلم اور تباہی اور ویرانی میں زبردست اضافہ ہؤا ہے۔ العوامیہ کے شیعہ عوام کے گھروں کو تباہ کیا گیا، اور اس وقت گھروں کے انہدام کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر ہفتے سعودی عرب سے کم از کم ایک سماجی حیثیت رکھنے والے شہری کی گرفتاری کی خبر آتی ہے۔
مشرقی علاقے کے نامی گرامی علماء پابند سلاسل ہیں، جن میں شیخ سمیر الہلال، آیت اللہ شیخ حسن راضی، آیت اللہ سید ہاشم شخص، محمد عباد، عباس المازن وغیرہ، جن کی تعداد 15 تک پہنچتی ہے اور وہ سعودی ریاست کے وفادار ہونے کے باوجود سعودیوں کے چنگل میں گرفتار ہیں۔
سعودیہ میں آج بھی “حدیث سازی” [یا جعل حدیث] کا سلسلہ
عصمت فروشی پھیلانے کے لئے سعودی طرز کی حدیث سازی “جعل حدیث”
سوال: کیا بن سلمان کے بادشاہ بننے کے سامنے کوئی سنجیدہ رکاوٹ ہے؟
جواب: اس مسئلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ میں کونسی جماعت بر سر اقتدار ہے؟
سوال: تو کیا یہ سعودی عرب کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے؟
جواب: نہیں؛ یہ مسئلہ اندرونی نہیں ہے، ذرائع ابلاغ سعودی عرب کے اندرونی حقائق کو بیان نہیں کرتے۔ سرزمین عرب پر حکمران سعودی قبیلہ اپنی حکمرانی کے آغاز سے اب تک، صرف امریکی احکامات کی تعمیل کرتا رہا ہے۔ اس قبیلے کا اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔
فی الوقت امریکیوں کی مرضی کے مطابق، سعودی عرب کو ایک تکفیری ریاست سے ایک علمانی (Secular) بنانا ضروری ہے، چنانچہ جن علماء سے تکفیریت پھیلانے کا فائدہ لیا گیا، وہ سب آج قیدخانوں میں ہیں۔ ریاست نے یہ سلسلہ ریاض اور جدہ سے شروع کیا اور مکہ اور مدینہ کی باری آئی؛ بیت اللہ الحرام اور حرم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قریب فحاشی کے اڈے قائم کئے گئے۔ اگلے مرحلے میں اس تشہیر کا آغاز کیا “حقیقی اسلام وہ نہیں ہے جو ہم آج تک جانتے تھے”۔
قبل ازیں سعودی حکومت ایک انتہاپسند اور تکفیری شکل میں ظاہر ہوتی تھی لیکن آج دوسرے اسلام کی تشہیر کر رہی ہے کہ عورتوں کا پردہ جبری نہيں ہے، حجاب صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زوجات پر واجب تھا؛ چنانچہ اب حجاب کو ختم ہونا چاہئے اور ناچ گانا جائز اور حلال ہے [:حلال ڈسکو متعارف کرایا گیا]۔
عادل الکلبانی مسجد الحرام کا امام جماعت تھا، مکہ میں ہوتا تھا، بی بی سی والوں نے رابطہ کیا تو اس نے رقص و آواز کی محافل جمانے کے لئے ایک جعلی حدیث کو بطور سند پیش کیا! اور ہاں دوسری طرف سے [جعلی ریاست] اسرائیل میں سعودیوں کے یہودی چچیرے بھائی بھی اس مسئلے پر شب و روز کام کر رہے ہیں۔
یمن کی جنگ نے سعودی خزانہ خالی کر دیا
سوال: یمن پر مسلط کردہ جنگ کے حوالے سے سعودی خارجہ پالیسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ سعودیوں نے آٹھ سال قبل اس جنگ کا آغاز کیا اور اس دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ اس جنگ کا مستقبل کیا ہوگا؟
جواب: میرے خیال میں سعودی حکمرانی کا تختہ الٹے گا تو یہ جنگ اختتام پذیر ہوگی۔ اس جنگ نے تاریخ کے بدترین بحران کو جنم دیا ہے۔ میں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سمیت کئی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے لیکن کسی بھی جنگ میں اتنے شدید اور شرمناک جرائم کا ارتکاب نہیں کیا گیا جتنا کہ اس جنگ میں کیا گیا ہے؛ اور کسی جنگ میں بھی اس انداز سے بے گناہ انسانوں کا قتل عام نہيں ہے۔ البتہ اس جنگ میں سعودی حکمران صرف آلہ کار ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ سعودیوں نے اپنے فیصلے پر اس جنگ کا آغاز کیا ہوگا۔
یہ جنگ سعودی جنگ نہیں بلکہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جنگ ہے۔ دوسری طرف سے یمنی عوام حالات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ سعودیوں نے آٹھ سالہ جنگ کے دوران یمن کے گھروں کو ان کے مکینوں کے سروں پر گرا دیا ہے اور بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا ہے حالانکہ یمنیوں نے ان کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے اور ایک شہری بھی ان کے حملوں میں ہلاک نہیں ہؤا ہے۔ اس کے باوجود، اس جنگ نے سعودیوں کا خزانہ خالی کرکے رکھ دیا ہے اور اس ملک کی مجموعی گھریلو آمدنی کے سلسلے میں سعودی ذرائع کی رپورٹیں غیر حقیقی ہیں۔
سعودی حکمرانوں نے 550 ارب ڈالر کا ہتھیاروں کا ایک معاہدہ امریکہ کے ساتھ منعقد کیا ہے اور جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور ہسپانیہ کے ساتھ بھی سینکڑوں ارب ڈالر کے ایسے ہی معاہدے منعقد کئے ہیں۔ اس ریاست نے یمن کی ویرانی پر اپنے مالی وسائل بھی برباد کر دیئے ہیں۔
ٹرمپ نے سعودی حکومت کو دودھ دینے والی گائے قرار دیا تھا، لیکن اب اس کا دودھ خشک ہو گیا ہے، اور ٹرمپ ہی کے بقول اب اسے ذبح کرنا چاہئے۔ جو منظرنامہ امریکہ نے عراق پر لاگو کیا اور صدام کو آٹھ سال تک ایران کے خلاف لڑایا اور جب بالکل جلا ہؤا مُہرہ بن چکا تو اسے پھانسی پر لٹکایا۔ جی ہاں! تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور جن ممالک نے ایران کے خلاف صدام کی حمایت کی اب یمن کے خلاف سعودی ریاست کی حمایت کر رہے ہیں۔
بہر صورت سعودی عرب اور ایم بی ایس یمن میں شکست کھا چکے ہیں، کیونکہ یمنیوں نے دنیا کے طاغوتوں، امریکی اور اسرائیلی طاغوتوں اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں ان کے اداروں کو رسوا کر دیا ہے۔ یمن نے انہیں ہزیمت اور ذلت سے دوچار کرکے توڑ دیا ہے؛ اور یمن اس جنگ کا فاتح ہے۔ اس وقت سعودی نظام مکمل گھاٹے میں ہے لیکن پھر بھی تکبر اور غرور دکھا رہا ہے اور یمنی عوام کی ناکہ بندی پر اصرار کر رہا ہے۔ یمنی سرکاری کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں، [جبکہ آل سعود نے ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کا عہد کیا تھا]؛ سعودیوں کی طرف سے ان کی روزی روٹی پر قدغن ہے؛ یہ سب سعودیوں کے سیاسی اوزار ہیں! اور یمنی عوام بھی اپنی استقامت کے ذریعے ایم بی ایس اور سعودی حکومت گرانے کی طرف بڑھ رہے ہیں؛ چنانچہ ایم بی ایس کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو صدام کے ساتھ ہؤا تھا۔ اور سعودیوں کو بھی ویسے ہی محاصرے کا سامنا ہوگا جس طرح کے صدام کو اپنے ہی حامیوں کی طرف سے محاصرے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سعودی ریاست یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام سے بھی ایک قدم آگے!
سوال: سابق صہیونی وزیر اعظم نیبن یاہو نے حال ہی میں کہا کہ اسرائیل نے سعودی عرب کی حمایت سے بعض عرب ریاستوں کے ساتھ اعلانیہ تعلقات قائم کئے ہیں؛ اور پھر سعودیوں نے سرزمین وحی کی فضاؤں کو اسرائیلی مسافر طیاروں کے لئے کھول دیا ہے، کیا سعودی حکمران صہیونیوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں؟
جواب: سعودی حکمران تعلقات کی بحالی کے مرحلے سے آگے بڑھ گئے ہیں، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ریاض میں یہودی ریاست کی جائیداد کی خرید و فروخت کے لئے کمپنیاں کی گئی ہیں۔ سب نے یہ بھی دیکھ لیا کہ معمولی خبررساں ادارے کے نامہ نگار نہیں بلکہ یہودی ریاست کے فوجی خبررساں ادارے کے نامہ نگار، حج کے ایام میں مکہ، مدینہ اور عرفات میں موجود تھے اور وہاں کی تصویریں بھیج رہے تھے۔ بہت سے یہودی نجران اور جیزان میں داخل ہوئے اور وہاں کے قدیم تاریخی مقامات کی تصویریں لیں۔
عوام اگر ان کی موجودگی پر احتجاج کریں تو حکام فوری طور جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ یہودی اور اسرائیلی ضرور ہیں لیکن کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔
ادھر امارات میں آنے والے ہزاروں اسرائیلی یہودیوں میں سے کم از کم 5000 افراد نے امارات کی شہریت حاصل کی ہے۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی سعودی عرب کے سفر پر نکلے تو اطمینان کے ساتھ گھوم پھر کر واپس جا سکتا ہے اور کوئی اس پر تنقید تک نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس امارات کا پاسپورٹ ہے!
اب تک تعلقات کی بحالی کے لئے بے شمار اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے چند روز قبل کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ صرف تعلقات کی بحالی کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ تعلقات کو آشکار کر دے!
سعودی ریاست ایران کے خلاف نفرت پھیلانے کے درپے
سوال: گذشتہ دو مہینوں کے دوران سعودی ذرائع ابلاغ اور ٹی وی چینلز کی طرف سے ایران کے خلاف زبردست تشہیری مہم جاری ہے۔ ایران کے ساتھ سعودیوں کی دشمنی کا راز کیا ہے؟
جواب: غاصب اسرائیلی ریاست عربوں کی دشمن ہے، اور سعودی حکومت اسرائیل سے دوستی بڑھا رہی چنانچہ اس کو ایک متبادل دشمن کی ضرورت ہے۔ بش کے زمانے میں ایسے کئی ویڈیو کلپس سامنے آئے کہ جس میں جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ: آیئے اسرائیل کے بحائے عربوں کے لئے ایک متبادل “مشترکہ دشمن” ڈھونڈ لیں۔ تاکہ عرب ریاستیں اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔ یہ مشترکہ دشمن ایران ہے۔ کیونکہ اسلام میں ایران کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ آج دوست اور دشمن کی جگہ بدل دی گئی ہے اور گویا ایران “عرب اور اسرائیل” کا مشترکہ دشمن ہے [جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے]۔
سعودی حکومت ایران کے خلاف نفرت پھیلانا چاہتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ ایرانی سنیوں کے دشمن ہیں! اور مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اور جزیرہ نمائے عرب پر فرمانروائی کے خواہاں ہیں؛ اور سنیوں کا قتل عام کرکے “عمر بن خطاب” سے بدلہ لینا چاہتے ہیں!
آل سعود کا دعوی ہے کہ منطقہ الشرقیہ کے شیعہ بھی ایران کے حامی ہیں، اور یہ لوگ سنیوں کو ماریں گے اور اگر ایران اور سعودیہ کے درمیان جنگ شروع ہو جائے تو یہ لوگ سعودی ریاست کے خلاف ایران کی حمایت کریں گے۔ سعودیوں نے ایران کو “مشترکہ دشمن” کے طور پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان کھڑا کیا ہے تاکہ عرب اس غاصب اور جعلی یہودی ریاست کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔
یقینا ایران یہودی ریاست کے خلاف فلسطینی بھائیوں کی اعلانیہ مالی اور عسکری امداد کر رہا ہے لیکن وہ دن ہرگز نہیں آئے گا کہ یہ ملک ہمیں سعودی حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے ہتھیار فراہم کرے لیکن وہ دن ضرور آئے گا کہ میں اور میرے عرب بھائی اسلحہ اٹھا کر اپنے ایرانی بھائیوں کے شانہ بشانہ اسرائیل کی بیخ کنی کے لئے کھڑے ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔