سعودی، یہودی ـ صہیونی لابیوں کے خطرناک کھیل میں پھنسے ہوئے ہیں

حقیقت یہ ہے کہ ہم یمن کے زمینی حقائق کی رو سے ایک مثلث دیکھ رہے ہیں جس کا ایک بازو امریکہ، دوسرا بازو یہودی ریاست اور تیسرا بازو ـ جس نے اپنی دولت کو بھی اور اپنی عزت و آبرو کو بھی اس بساط پر ڈال دیا ہے ـ سعودی عرب ہے۔

فاران؛ ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
س: بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ امریکیوں نے یمن میں انصار اللہ کے مجاہدین کی میزائل قوت کے سلسلے میں ایک نفسیاتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ میزائل انصار اللہ کو ایران نے بطور تحفہ دے دیئے ہیں تاکہ سعودی عرب کو نشانہ بنا دے۔ بعض اوقات وہ کچھ تصاویر بھی دکھاتے ہیں اور حال ہی میں نیتن یاہو نے میونخ اجلاس میں ایک ڈرون کا ٹکڑا لہراتے ہوئے دعوی کیا کہ “یہ ایرانیوں کے لئے ہے” اس کے پس پردہ منظرنامہ کیا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ یمن کے مسئلے میں، ہم انصاراللہ کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انصار اللہ کے ساتھ اس لئے رابطے میں ہیں کہ وہ یمنی عوام کے حقوق کے حصول اور امریکہ اور یہودی ریاست کی غلط پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سیاسی جماعت اور ایک عوامی تحریک کے طور پر اہم کردار ادا کررہی ہے؛ ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ ایسی حقیقت ہے جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
لیکن یہ جو دعوی کیا جارہا ہے کہ ہم ان کو میزائل دے رہے ہیں، تو میں یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ: جس وقت جناب اسماعیل ولد الشیخ کو یمن میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے طور پر تعینات کیا گیا، میں نے تہران میں اور اس کے دو ہفتے بعد برسلز میں ان کے ساتھ ملاقات کی۔ اسی وقت سعودی دعوی کررہے تھے کہ ایران انصار اللہ کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
ولد الشیخ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں اور بعد میں آپ اس کا جواب دیں۔ اور انھوں نے جو واقعہ سنایا وہ یوں تھا کہ “چند سال قبل میں اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کے نمائندے کے طور پر یمن میں تعینات تھا اور میں اس وقت اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یمن میں ہر شہری کے مقابلے میں چار ہتھیار پائے جاتے ہیں” یعنی آبادی: ۲۳۸۳۳۳۷۶ افراد، ہتھیاروں کی تعداد: ۹۵۳۳۳۵۰۴۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم یمن کے زمینی حقائق کی رو سے ایک مثلث دیکھ رہے ہیں جس کا ایک بازو امریکہ، دوسرا بازو یہودی ریاست اور تیسرا بازو ـ جس نے اپنی دولت کو بھی اور اپنی عزت و آبرو کو بھی اس بساط پر ڈال دیا ہے ـ سعودی عرب ہے۔
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب یہودی لابی کی منصوبہ بندی کے تحت شروع ہونے والے ایک خطرناک کھیل میں الجھا ہؤا ہے۔ میں سعودی حکام اور علاقے کے ممالک کے نمائندوں سے اپنی ملاقاتوں میں ـ جو آج تک جاری ہیں ـ اپنی تشویش ظاہر کرتا رہا ہوں کہ یہودی ریاست کا منصوبہ یہ ہے کہ علاقے کے ممالک کو تقسیم در تقسیم کردے اور اس یہودی منصوبے میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
عرب دنیا کے مفکرین، صاحبان نقد و نظر اور سیاستدان ـ جو کہ عرب معاشروں کے منورالفکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ـ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے ایسے جال میں پھنس چکا ہے جو اس ملک کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کررہا ہے، اور یہ مغربی ایشیا اور عالم اسلام کے ایک ملک کے طور پر مستقبل میں مزید بحرانوں اور بالآخر تقسیم کے خطرے کا شکار ہوسکتا ہے۔
سوال: سعودی عرب طویل عرصے سے یمن میں الجھا ہؤا ہے، کیا وہ یمن کا مسئلہ ختم نہیں کرنا چاہتا یا پھر ایسا کرنے سے عاجز ہے؟
جواب: میرا تصور یہ ہے کہ سعودی عرب یمن میں ایک بہت بڑی دلدل میں دھنسا ہؤا ہے؛ یمن پر سعودی عرب کی ٹھونسی ہوئی جنگ کا تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا اور جناب عادل الجبیر کی وزارت خارجہ کے وزیر خارجہ بننے کا بھی تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا کہ میں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جدہ کے دورے پر تھا۔ وہاں میری ملاقات عادل الجبیر سے ہوئی تو میں نے ان سے یہی کہا کہ “تم غلطی کے مرتکب ہوچکے ہو، اور یمن کے بحران کا حل سیاسی ہی ہے”۔ الجبیر نے غصے کی حالت میں کہا: دیکھ لوگے کہ ہم تین مہینوں سے بھی کم عرصے میں انصار اللہ کو شمالی یمن میں نیست و نابود کریں گے و۔۔۔” میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور مسکرا کر کہا: “میرا نہیں خیال۔۔۔” لیکن آپ کہتے ہیں تو آنے والے دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں بہت سے وہ لوگ جو بہ زعم خویش یمن پر حملے کے حوالے سے عقلیت کے راستے پر گامزن تھے، سوچ رہے تھے کہ سعودی زیادہ سے زيادہ تین مہینوں کے عرصے میں یمن میں قطعی طور پر کامیاب ہوجائے گا اور یمن کا بحران اسی انداز سے ختم ہوگا جس طرح کہ سعودی عرب کی آرزو ہے۔
سعودیوں کو امریکہ سے بہت توقعات تھیں۔ ایک بار میں نے علاقے کے ایک عسکری ماہر سے کہا: میں فوجی نہیں ہوں اور فوجی مسائل کا زیادہ ادراک نہیں رکھتا اور میرا جنگی تجربہ دفاع مقدس کے دور میں ایک رضاکار بسیجی کا تجربہ ہی ہے، یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ یمن کی جنگ میں سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے تو اس نے کہا: امریکی کہتے ہیں کہ ہم سیارچوں کے ذریعے یمن میں سعودی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بہت بڑی قیمت وصول کرکے اپنے پیشرفتہ ترین جنگی طیارے سعودیوں کو فراہم کرتا ہے لیکن امریکہ کی یہودی ـ صہیونی لابیوں اور امریکی سلامتی کے اداروں کے درمیان مسلسل تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر سعودی عرب میں بھی اچانک مصر کی طرح کا انقلاب آجائے اور حالات تبدیل ہوجائیں تو یہ جنگی سازوسامان کسی طور پر بھی یہودی ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ امریکہ نے جدیدترین طیارے تو سعودیوں کو دے دیئے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے:
۱۔ یہ طیارے جب صنعا پر بمباری کے لئے جاتے ہیں تو واپسی میں یمن کی فضائی حدود سے نکلنے سے پہلے ہی ان جدید طیاروں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے لہذا انہیں یمن سے نکلنے سے قبل ہی ایندھن وصول کرنا پڑتا ہے۔ ایندھن لینے کی کاروائی کے لئے ایک خاص قسم کا پٹرول چاہئے جو امریکیوں نے سعودیوں کو فراہم نہیں کیا ہے، اور بحر ہند میں اس قسم کے ایندھن کا حامل ایک جہاز تعینات ہے جس سے انتقال پذیر ایندھن بھرنے کی صورت میں ان طیاروں کو ایندھن فراہم کیا جاتا ہے لیکن جو طیارے یہ ایندھن اس جہاز سے اٹھا کر اس طیاروں کو منتقل کرتے ہیں، بھی سعودی عرب کو فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور وہ روش نیز وسائل امریکی ایندھن رساں طیاروں کے پاس ہیں۔ پس ان طیاروں کا ایندھن اور اس کی منتقلی کا کام ہر لحاظ سے اور ۱۰۰ فیصد امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
۲۔ یہ طیارے بہت جدید ہیں اور جب یہ مثلا صنعا میں کسی ہدف کو نشانہ چاہیں تو اس سے پہلے ایک ڈرون پرواز کرتا ہے، علاقے کو دیکھ لیتا ہے اور ریکی کرتا ہے، مختصات کو سعودی فضائی کمانڈ کے لئے بھیجتا ہے، کمانڈ اسے طیارے کے پائلٹ کے لئے بھیجتی ہے جس کے بعد وہ جاکر کسی اسکول، پانی کی کسی ٹینکی، کسی چھاؤنی یا کسی بازار کو نشانہ بنانے چلا جاتا ہے۔ یہ ڈرون بھی سعودیوں کے پاس نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ میں لاجیسٹک اور معلومات کے حوالے سے سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار سعودیوں کو فروخت کئے ہیں لیکن وہ ان ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار نہیں رکھتے۔