صہیونی ریاست کے اندر ایسے کیا عوامل ہیں جو اس کی فنا کی رفتار کو تیز تر کر رہے ہیں؟

دنیا کے یہودیوں کی طرف سے صہیونی نظریئے کی منظم مخالفت کی لہر میں شدت اور مسلسل وسعت آ رہی ہے، اور فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل، یہودی مذہبی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی، چنانچہ یہ مسئلہ بھی اسرائیل کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سوال: آپ اسلامی بیداری سے قوت پانے والی مقاومت کو اسرائیل کے زوال کا اہم ترین سبب سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے اندر ایسے کیا عوامل ہیں جو اس کی فنا کی رفتار کو تیز تر کر رہے ہیں؟
اسرائیل کو سنہ 1948ع‍ میں اپنی تاسیس کے پہلے دن سے ہی دو بنیادی مسائل کا سامنا ہے: قانونی حیثیت اور سلامتی۔ اور ان دو مسائل نے اس کی بقا اور وجود کو مسلسل خطرات سے دوچار کئے رکھا ہے۔ اس ریاست کو ابتدائی دن سے ہی اندرونی طور پر قانونی جواز و حیثیت اور بین الاقوامی طور پر – بالخصوص مسلم اور عرب ممالک کی طرف سے – تسلیم نہ کئے جانے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ فلسطین نے اسرائیلی ریاست کے قانونی جواز کو مسترد کیا اور مختلف مراحل میں مقاومتی [یا مزاحمتی] تحریکوں کو جنم دیتا رہا۔
غاصب اسرائیل کو درپیش اندرونی چیلنجوں کو ذیل کے چند موضوعات کے ضمن میں بیان کیا جا سکتا ہے:
نسلی اور طبقاتی امتیاز
حالیہ برسوں میں صہیونی معاشرے میں نمایاں ہونے والی اہم ترین دراڑوں میں سے ایک – جس نے اس کو عمومی ناراضگی اور عدم استحکام سے دوچار کیا ہے – “قومی اور طبقاتی امتیاز” ہے۔ صہیونی معاشرہ دو اہم گروپوں [فرقوں] پر مشتمل ہے: اشکنازی (Ashkenazi) جنہیں اشکنازی یہود (Ashkenazi Jews) بھی کہا جاتا ہے اور سیفاردی یہودی (Sephardi OR Sephardic Jews)۔ سیفاردی وہ یہودی ہیں جو ہسپانیہ اور پرتگال پر مشتمل جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) میں رہائش پذیر تھے اور اندلس میں مسلمانوں کی خلافت کے زوال کے بعد سنہ 1492ع‍ میں اس ملک سے بھاگ کر جنوبی یورپ، شمالی افریقہ نیز شہر لندن، موجودہ ولندیزی دارالحکومت ایمسٹرڈیم (Amsterdam) اور موجودہ جرمنی کے شمالی شہر ہیمبرگ (Hamburg) میں قیام پذیر ہوئے۔ آج یہ اصطلاح توسیع پا کر شمالی افریقہ، عراق، شام، یونان، ترکی کے یہودیوں سمیت ان تمام غیر اشکنازی یہودیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اشکنازی یہودی فرقہ غاصب اسرائیلی ریاست کا طاقتور فرقہ ہے۔ اشکناز (Ashkenaz) جرمنی کا عبرانی نام ہے چنانچہ اشکنازی کے معنی “جرمن یہودی” کے ہیں۔ یہ اصطلاح رفتہ رفتہ پورے یورپ اور امریکہ سے فلسطین میں آنے والے یہودیوں کے لئے استعمال ہوئی۔
اشکنازیوں اور سیفاردیوں کے درمیان دیرینہ دشمنی پائی جاتی ہے؛ کیونکہ سیفاردی یہودیوں کے اشراف تھے اور اشکنازیوں کے پڑوس میں آ بسنے کی وجہ سے شرم و خجلت کا اظہار کرتے تھے اور اشکنازیوں سے دور رہنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ وہ اشکنازیوں کے ساتھ ایک مقام پر عبادت نہیں کرتے تھے اور ان کے ساتھ شادی بیاہ بھی نہیں کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ صورت حال معکوس ہوئی۔ آج سیفاردی کمزور اقلیت میں تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اشکنازی مغربی تہذیب میں بھی اور غاصب صہیونی ریاست میں بھی، نمایاں حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سیفاردیوں اور اشکنازیوں کے درمیان دراڑ نظریاتی نہیں بلکہ معاشی ہے، جسے پر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایک دیرینہ عدم مساوات ہے؛ یہاں تک کہ سیفاردیوں کی تیسری نسل ہنوز مزدور طبقے سمیت معاشرے کے نچلے طبقات کا جزو ہیں؛ جبکہ اشکنازی اوسط طبقات سے اوپر کے طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
کچھ صہیونی عمائدین نے سیفاردیوں کو قرون وسطائی اور پسماندہ قرار دیا ہے جو اشکنازیوں کے ساتھ گہرا [سماجی] فاصلہ رکھتے ہیں۔ اشکنازی حتی سیفاردیوں کو عقلی لحاظ سے بھی پسماندہ سمجھتے ہیں اور سیفاردی اور اشکنازی ایک دوسرے کو “نجس زادہ” سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ کو ممنوع۔
معاشی لحاظ سے بھی ترتیب یافتہ عمومی پالیسیاں اشکنازیوں کی اقتصادی بنیادوں کو تقویت پہنچاتی ہیں جبکہ سیفاردیوں کی غربت، بے روزگاری اور مایوسی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ پالیسیاں یہودی برادری میں دو اعلیٰ اور ادنیٰ طبقوں کو جنم دیتی ہیں۔ سیاسی لحاظ سے صہیونی حکومت کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کا راستہ سیفاردیوں کے لئے مسدود ہے یا کم از کم بے شمار مشکلات سے بھرا ہؤا ہے۔ پارلیمان “کنیسٹ” (Knesset) یا کابینہ میں سیفاردیوں کی تعداد خود ہی اس گروپ پر مسلط کردہ سیاسی امتیاز کی نشاندہی کرتی ہے۔
فوجی اداروں میں بھی اہم عہدے اشکنازیوں کے پاس ہیں اور فوج کے سخت اور جان لیوا اور کربناک ذمہ داریاں عام طور پر سیفاردیوں کے سپرد کی جاتی ہیں۔ یہ سماجی شگاف رفتہ رفتہ اندر سے ہی اس ریاست کے انہدام کا سبب بن سکتا ہے۔
یہودیت، صیہونیت اور نظریاتی تضادات
صہیونی معاشرے میں ایک بنیادی اختلاف “یہودیت، صہیونیت اور ریاست” (Judaism, Zionism and the state) جیسے مفاہیم اور تصورات کے حوالے سے پایا جاتا ہے۔ اس سماجی تضاد کا ایک فریق صہیونیت کے حامی انتہاپسند مذہبی یہودیوں پر مشتمل ہے اور دوسرا فریق “مابعد صہیونیت” (Post-Zionism) کے علمبردار یہودی ہیں۔ صہیونی معاشرے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران مذہبی رجحانات کو فروغ ملا ہے جس کی وجہ سے مذہبی یہودیوں اور سیکولر یہودیوں کے درمیان دراڑ نے جڑیں پکڑ لی ہیں۔ چنانچہ صہیونی ریاست مذہبی تنازعات کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنے سے عاجز ہے۔
مذہبی دھڑے صہیونی ریاست کے بطور یہودی ریاست متعارف کرانے اور مذہبی امتیاز کو مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں، جبکہ سیکولر دھڑے اس ریاست کے علمانی تشخص پر زور دیتے ہیں اور غیر یہودی اقلیتوں کو بھی اس معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ جس تشخص کو صہیونیت کے بانیوں نے قومی اور مذہبی دراڑوں کو پر کرنے کے لئے غالب نظریئے میں تبدیل کر دیا تھا، اسی نے اسرائیلی معاشرے میں قومی اور مذہبی چیلنجوں اور صہیونی نظریئے میں مضمر تضادات کو پہلے سے کہیں زیادہ عیاں کردیا ہے؛ اور صہیونی ریاست کی تشکیل میں کارفرما نظریاتی تضادات پہلے سے زیادہ نمایاں ہوئے ہیں، اور نہ صرف قومی اور مذہبی اقلیتیں ان کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ خود یہودی بھی ان کے معترف ہیں، یہاں تک کہ اس ریاست کے حامی بھی ان تضادات سے نالاں ہیں۔
معکوس نقل مکانی !
صہیونی ریاست کی تاسیس کی بنیاد ہی دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی ترغیب، پر رکھی گئی تھی۔ گو کہ صہیونی ایجنسی یہودیوں کی ایک بڑی آبادی کی مقبوضہ فلسطین منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن حالیہ عشروں سے اس ریاست کو معکوس نقل مکانی کا سامنا ہے۔ اس نئی صورت حال میں مقبوضہ سرزمینوں میں آ بسنے والے یہودی باشندے عدم تحفظ، نیز “سماجی بہبود” اور “بہتر زندگی کے سپنوں کی اسرائیلی دنیا” کے حوالے سے یہودی حکمرانوں کے وعدوں کی ناکامی کی وجہ سے، اپنے آبائی ممالک کی طرف پلٹ رہے ہیں۔
چونکہ یہودی ریاست کی بنیاد نقل مکانی پر استوار ہے، لہذا نقل مکانی کی اہمیت صرف آبادی کا حجم اور شرح نمو پر ہی اثر نہیں ڈالتی بلکہ یہ نسلی اور ثقافتی خصوصیات کے تعین اور اسرائیلی معاشرے کے طبقاتی ڈھانچے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
غاصب ریاست کی سرکاری رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی شہریت کے حامل ساڑھے سات سے ساڑھے آٹھ لاکھ تک یہودی، مقبوضہ فلسطین سے باہر مقیم ہیں۔ معکوس نقل مکانی ان ہی ایک ملین یہودیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس وقت لاکھوں یہودی پاسپورٹ لے کر فلسطینیوں کی سرزمین ترک کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
رائے شماریوں میں “صہیونی نظریئے کی کمزوری اور تضادات” اور “امن و سکون اور سماجی بہبود” کا فقدان الٹی نقل مکانی کے بنیادی اسباب ہیں۔
سنہ 2014ع‍ میں صہیونی ٹیلی وژن کے چینل “العاشرہ” نے یہودیوں کی معکوس نقل مکانی کے بارے میں ایک سروے رپورٹ نشر کرکے واضح کیا پانچ لاکھ سے زائد یہودی معاشی بدحالی کی وجہ سے فلسطین چھوڑنے پر آمادہ ہوئے ہیں؛ اور مقبوضہ علاقوں کی 50 فیصد یہودی آبادی فلسطین چھوڑ کر معکوس نقل مکانی کی تیاریاں کر رہی ہے اور آٹھ لاکھ یہودی ہمیشہ کے لئے مقبوضہ سرزمینوں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
امریکہ کے 16 جاسوسی اداروں نے ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل 2025ع‍ تک دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ اس تحقیق میں یہودی ریاست کی شکست و ریخت کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہودیوں کی بڑی تعداد فلسطین سے ان ممالک میں واپس جا رہی ہے جہاں سے وہ آئے تھے۔
نیز انٹیلی جنس سے متعلق سینیٹ کے منتخب نمائندوں اور ایوان نمائندگان کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کو پیش کردہ امریکی سی آئی اے کے مستقبلیات کے ماہرین (Futurists) کے جائزے کے مطابق، اسرائیلی ریاست 2029ع‍ سے زیادہ قائم نہیں رہ سکے گی۔ بگڑتے ہوئے معاشی حالات، سلامتی کو لاحق خطرات اور یہودیت سے لگاؤ میں آنے والی شدید کمی، معکوس نقل مکانی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
مذکورہ بالا وجوہات کے ساتھ، ذیل کے مسائل بھی غاصب اسرائیل کو درپیش اندرونی چیلنجوں کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے، جو اس ریاست کے خاتمے کے زوال کی رفتار کو تیز تر کریں کے:
– دنیا کے دوسرے علاقوں سے یہودیوں کی آمد میں شدید کمی، اسرائیل کا بنیادی مسئلہ ہے کیونکہ اسرائیل کا وجود ہی یہودیوں کی آمد اور آبادکاری پر استوار کیا گیا، جو اب منہدم ہو رہی ہے۔
– صہیونیوں کے درمیان پھوٹ کا ظہور، جو ہر روز مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے: جیسے فوج اور حکومت کے درمیان دراڑیں، امن و امان کے قیام میں ناکامی کی وجہ سے صہیونیوں کا فوج پر عدم اعتماد اور حکام اور سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد کا فقدان۔
– صہیونیوں نے یہودی ریاست کے بنیادی نظریات سے منہ موڑ لیا ہے اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے صہیونیوں – خاص کر اعلیٰ سرکاری اہلکاروں – کے درمیان مالی چوربازاریوں اور اخلاقی بدعنوانیوں نے جڑ پکڑ لی ہے۔
– اسرائیل اتنا لمبا اپنی تاسیس کے 60 سال سے زائد عرصے میں، ابھی تک “قومی تشخص” کی تعریف واضح نہیں کرسکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کئے ہوئے عوام سیاسی جماعتوں اور حکام کے منصوبوں اور پروگراموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے؛ اور وہ اپنے لئے یہودی یا اسرائیلی تشخص کے قائل نہیں ہیں بلکہ اپنے آبائی ممالک والی شناخت اور تشخص کو ترجیح دیتے ہیں۔ غاصب ریاست کی قلمرو کے اندر روسی نژاد یہودیوں کی جماعت، مجاری نژاد لوگوں (Hungarians) کی جماعت وغیرہ کا قیام اس معاشرے میں قومی تشخص کے فقدان کی وجہ سے عمل میں آیا ہے۔
– یہودیوں کی نسلی پاکیزگی کے دعوے کو بھی – ایتھوپیا، بھارت، مراکش، چین وغیرہ سے یہودیوں کے مقبوضہ سرزمین میں بلائے جانے کی وجہ سے – چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور دعویٰ کیا گیا کہ “یہ لوگ بنی اسرائیل کے کھوئے ہوئے [گمشدہ] قبائل و اسباط ہیں، جنہیں صدیاں بعد ڈھونڈ لیا گیا ہے”۔ ان لوگوں کو مقبوضہ فلسطین میں منتقل کیا ہے تاکہ آبادی میں کمی کے بحران کو حل کیا جا سکے کیونکہ یورپی اور امریکی یہودی فلسطین میں نقل مکانی کی تجویز کا خیر مقدم نہیں کر رہے ہیں اور دوسری طرف سے کثیر تعداد میں یہودی فلسطینی مقاومت کی جدوجہد اور بدامنی کے بڑھتے ہوئے احساس کی وجہ سے فلسطین کو ترک کرکے جا رہے ہیں۔
– دنیا کے یہودیوں کی طرف سے صہیونی نظریئے کی منظم مخالفت کی لہر میں شدت اور مسلسل وسعت آ رہی ہے، اور فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل، یہودی مذہبی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی، چنانچہ یہ مسئلہ بھی اسرائیل کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ [گوکہ عالمی سطح پر یہودیت کے زیر اثر میڈیا نے اس حقیقت کو اقوام ممالک سے چھپانے کی کوشش کی ہے]۔
– صہیونیوں کی نئی نسل میں ایک طبقہ معرض وجود میں آیا ہے جو اسرائیلی تشدید کی شدید مخالفت کرتا ہے؛ [جبکہ اسرائیلی ریاست کے تحفظ کا ایک اہم اور بنیادی اصول تشدد اور دہشت گردی پر استوار ہے مگر] یہ نیا طبقہ اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں اور پروگراموں کی ہر ممکن طور پر مخالفت کرتا ہے، فلسطینیوں کو باقاعدہ اسرائیلی باشندے سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے خواہاں ہیں اور ان کے لئے یہودیوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ نوجوان یہودی اب بن گورین اور اس کے جانشینوں کے اصولوں سے باغی ہیں جس کی ایک بہت اہم مثال یہ ہے کہ یہ نوجوان جبری فوجی خدمت سے بھاگ جاتے ہیں اور حال ہی میں کچھ یہودی فوجیوں نے چھاؤنی کے اندر اسرائیلی پرچم کو نذر آتش کیا ہے؛ اور یہ واقعات یقینی طور پر نوجوان یہودیوں کے درمیان اٹھنے والے اسرائیلی جذبات کا ناقابل انکار نمونہ ہے۔