مسلمانوں کے نام سعودی باشندوں کا پیغام
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
حجاز کی املاک اسرائیلی یہودیوں کو فروخت کی گئی ہیں
اے مسلمانان عالم! جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت حجاز مقدس (جدہ سے تبوک اور اردن کی سرحدوں تک) میں تباہ کئے جانے والے اراضی کو یہودیوں نے خرید لیا ہے اور ان اراضی کے مالک صہیونی یہودی ہیں۔
حجاز مقدس یہودی ملکیت!
سوال: کیا جزیرہ نمائے عرب میں یہودی باشندے بھی ہیں؟
جواب: نہیں! یہاں وہ یہودی اور اسرائیلی ہیں جن کے پاس امریکی شہریت ہے، انھوں نے حتی کہ پراپرٹی کی کمپنیاں قائم کی ہیں۔
مثال کے طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں 50 فیصد اراضی ڈانلڈ ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر (Jared Kushner) کی ملکیت ہیں، سعودیہ میں اس کی کمپنی امریکی لائنسنس یافتہ ہے اور وہ امریکی-اسرائیلی یہودی ہے۔
نیز ریاض کی سڑکوں پر سیلفیاں لینے والے اور سعودی باشندوں کے ساتھ ناچنے گانے والے یہودی ربی، جن کی تصویروں کے پس منظر میں “برج الخلیفہ” نامی عمارت نظر آ رہی ہے، سب کشنر کی جائیدادی دفتر میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ مکہ، مدینہ اور جدہ میں زمینیں خریدتے ہیں یا یوں کہئے کہ حجاز مقدس کی تمام زمینیں آج اسرائیلی یہودیوں کی ملکیت بن چکی ہیں۔
ایم بی ایس نے اعلان کیا تھا کہ بندر القیر اور واجہۃ العقیر میں ایک لاکھ مکانات کی تیاری کا اعلان کیا تھا۔ سنہ 2016ع میں سعودی بادشاہ سلمان نے ان رہائشی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا لیکن آج سنہ 2022ع میں سعودی بادشاہ کے رکھے ہوئے سنگ بنیاد کے سوا حتی ایک گھر بھی نہیں بنا ہے۔
یہی نہیں بلکہ صوبہ تبوک میں مبینہ نئوم (Neom ) پراجیکٹ – جس کا 2016ع سے 2020ع تک خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا – بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور اس میں صرف ایک ہوائی اڈے، ایک کانفرنس ہال اور ایک چھوٹے سے بنگلے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور لق و دق صحرا کے سوا کوئی رو بعمل منصوبہ نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر، جو کچھ کہا گیا وہ سب ایک ابلاغیات شوشہ ہے۔
سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح 86 فیصد
یہاں تک کہ روزگار کے بارے میں بھی جعلی اعداد و شمار سے کام لیا جاتا ہے، سنہ 2016ع سے سنہ 2020ع تک عکاظ سمیت سعودی اخباروں نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے دو کروڑ ساٹھ لاکھ روزگار کے مواقع کی فراہمی کا اعلان کیا اور اس مفروضے کے مطابق کوئی بھی سعودی شہری بے روزگار نہ رہتا مگر حقیقت میں سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح 86 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
سعودی عرب معاشی لحاظ سے زوال کے دہانے پر
سوال: جب سعودی حکام جوانوں کے لئے رزگار اور معاشی منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں، تو پھر ان میں کامیاب کیوں نہ ہوتے؟ کیا بجٹ کی کمی ہے یا یہ منصوبے ہی سرے سے خیالی ہیں؟
جواب: تمام منصوبے خیالی ہیں، کیونکہ آل سعود کی حکومت معاشی زوال سے دوچار ہے۔ سعودی سرمائے یا بیرونی سرمایہ کاریوں پر خرچ ہوئے ہیں یا یمن پر جارحیت کے لئے یا ایران، شام اور عراق کے خلاف اشتعال انگیز کاروائیوں اور عربی-اسلامی ممالک کی ویرانی اور بربادی پر۔ ملک کے اندر کسی بھی منصوبے پر کام نہیں ہو رہا ہے۔ کونسا عقلمند انسان کہہ سکتا ہے کہ سعودی عرب میں منصوبوں پر کام ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو یہ منصوبے کہاں ہیں؟ 2016ع سے 2022ع تک اعلان شدہ منصوبے کہاں ہیں؟
محمد بن سلمان نے عوام کو آگہی سے دور رکھنے کے لئے مفکرین کو پابند سلاسل کردیا ہے
سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایم بی ایس نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے اور سعودی انتہاپسندیوں سے نمٹنے کے درپے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: سعودی ریاست نے مذہب کو اوزار کے طور پر لوگوں کے خلاف استعمال کرتی رہے ہے۔ قبل ازیں سعودی قبیلہ مذہب کو انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی، فرقہ واریت، نسل پرستی اور عرب و اسلامی ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں قائم کرنے کے لئے استعمال کرتی تھی جیسا کہ آپ نے عراق، شام، پاکستان وغیرہ میں دیکھا جہاں سعودیوں نے تکفیری اور خودکش دہشت گرد بھجوائے اور آج جبکہ تکفیریوں اور انتہاپسندوں کا زمانہ گذر چکا ہے، تو آل سعود کو ایسے علماء کی ضرورت ہے جو اللہ کے حرام کردہ اعمال و افعال کو حلال قرار دیں، جیسے بے پردگی، فحاشی، عریانی جوا بازی وغیرہ۔
ایم بی ایس شیخ حسن الراضی، السید ہاشم الشخص، شیخ حسن فرحان المالکی وغیرہ جیسے قوی ترین شخصیات کے خلاف لڑ رہے ہیں حالاکہ وہ تمام فرقوں اور مذاہب کے اتحاد، عدم تشدد کے داعی اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں، معاشرے کے مربی ہیں، کئی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، گوکہ ان کی کتابون کی اشاعت سعودی قلمرو میں ممنوع ہے، انھوں نے وحدت مسلمین اور تشدد اور انتہاپسندی کی حرمت پر کتابیں لکھی ہیں، اور وہ بردباری اور عدم تشدد کی دعوت دیتے ہیں، تکفیر کی نفی کرتے ہیں۔
ایم بی ایس نے ان بزرگوں کو پابند سلاسل کیا جیسا کہ بہت سے لکھاریوں، ڈاکٹروں، فلسفیوں، ماہرین معاشیات اور سیاستدانوں کے خلاف لڑے۔ یہ سب ایم بی ایس کے ہاتھوں جیلوں میں بند ہیں، اس لئے کہ ان کی بصیرت اور آگہی عوام تک نہ پہنچ سکے اور وہ کہیں آل سعود قبیلے کی حکمرانوں کا تختہ ہی نہ الٹ دیں۔
ایم بی ایس اتحاد مسلمین کے دشمن / اتحاد سعودی بادشاہت کے زوال کا سبب!
سوال: آپ کے کہنے کے مطابق، محمد بن سلمان اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے خواہاں نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟
جواب: اتحاد مسلمین خطے میں سعودی مفادات کو پورا نہیں کرتا اور اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو یہ سعودی بادشاہت کی کایا پلٹ کا سبب بنے گا۔ شام میں بھی سعودی عرب نے جنگ کا آغاز کیا۔ میں نے چار سال تک حلب میں تعلیم حاصی کی ہے، لیکن مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ میرے دوست عیسائی، دوروزی، شیعہ یا سنی ہیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ان کا تعلق کس ذات یا قوم سے ہے۔ وہ صرف شامی اور میرے دوست تھے۔
سعودی ریاست نے تکفیریوں کی مالی امداد کے علاوہ، اپنے ہاں کے سزا یافتہ اور تکفیری قیدیوں تک شام اور عراق بھجوایا “جلا وطنی کے نام پر”۔
شام اور عراق میں تکفیریوں کی حمایت و امداد
سوال: کیا سعودیوں نے سرکاری طور پر بھی تکفیریوں کی حمایت کی ہے؟
جواب: آپ انٹرنیٹ میں جستجو کرسکتے ہیں: سابق بادشاہ کی مالی امداد الراشی اور الریاض نامی بینکوں میں موجود اکاؤنٹس کے ذریعے، یہ بینک اور ان کی طرح کے دوسرے سرکاری بینک عراق اور شام میں دہشت گردوں کی حمایت و امداد پر مامور تھے۔ تکفیری سوچ رکھنے والے قیدی سرکاری قیدخانوں میں تھے جنہیں سعودی سرکار نے شام اور عراق میں “جہاد” کے لئے روانہ کیا؛ زندہ بچنے کی صورت میں رہائی کی شرط پر۔
جاری
تبصرہ کریں