مغربی ایشیا کے دورے سے بائڈن کے مقاصد حاصل ہونا آسان نہیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: تہران یونیورسٹی کی عالمی مطالعات فیکلٹی کے رکن ڈاکٹر فؤاد ایزدی کا خیال ہے کہ خطے کے دورے کے لئے بائڈن کے مقررہ اہداف و مقاصد کا حصول آسان نہیں ہوگا اور یہ بھی بہت دشوار ہے کہ بائڈن کے دباؤ کے تحت اگر اس خطے کے ممالک اپنے تیل کی پیداوار بڑھا بھی دیں تو امریکہ کو درپیش جان لیوا مسائل کا خاتمہ ہو۔
فؤاد ایزدی کے ساتھ فارس نیوز ایجنسی کے مکالمے کے اہم نکات:
بائڈن نے کچھ دن پہلے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون شائع کرکے سعودی دورے کے مقاصد بیان کئے ہیں اور اپنی توجہ تین اہم نکات پر مرکوز کئے ہیں:
بائڈن کی اسرائیل نوازی نے ریکارڈ توڑ دیئے!
سعودیہ کے دورے سے بائڈن کے مقاصد کا پہلا نکتہ صہیونی ریاست ہے چنانچہ وہ اپنے مضمون ” Why I’m going to Saudi Arabi” میں لکھتے ہیں: “بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری حکومت نے اسرائیل کی حمایت میں ریکارڈ قائم کیا ہے، اور ان کی بات درست ہے!”۔
اس سے پہلے امریکہ سالانہ تین ارب ڈالر امداد جعلی ریاست کو فراہم کرتا تھا اور یہ امداد چار ارب تک پہنچ گئی ہے، چنانچہ بائڈن نے ایک ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے؛ جو ایک ریکارڈ ہے۔
بائڈن انتظامیہ نے دوسرے شعبوں میں اس طرح کی حمایتوں میں اضافہ کیا ہے اور بائڈن انتظامیہ میں بڑی تعداد میں صہیونیوں (یہودیوں) کی بھرتی! بھی ایک ریکارڈ ہے جس کے نتیجہ صہیونیوں کے تئيں واشنگٹن کی براہ راست حمایت بھی ایک نیا ریکارڈ بن چکی ہے!
اس وقت وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، امریکی خفیہ اداروں کا سربراہ، بائڈن کے دفتر کا سربراہ، امریکہ کی قومی سلامتی کا وزیر سب کے سب یہودی ہیں یہ امریکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے کہ وزیر خارجہ بھی، نائب وزیر خارجہ بھی اور اس وزارت کا نائب برائے سیاسی امور بھی، سب کے سب صہیونی نوعیت کے یہودی ہیں؛ اور دوسرے اداروں میں بھی یہودیوں کی بھرمار بھی اس ملک کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے؛ اور یہی مسئلہ عارضی اسرائیلی ریاست کی تئیں زیادہ سے زیادہ اور ریکارڈ حمایت کا باعث ہے۔
سیاسی، ثقافتی، معاشی، عسکری، سکیورٹی سمیت تمام سرکاری شعبوں میں صہیونی ریاست کی بے انتہا حمایت بائڈن انتظامیہ کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ [بائڈن نے انتخابی مہم میں بھی کہا تھا کہ “میں صہیونی ہوں اور صہیونی ہونے کے لئے یہودی ہونا ضرور نہیں ہے”۔
ایران کے مقابلے میں امریکی ناکامیوں کے حوالے سے بائڈن کے اعترافات
امریکیوں نے جعلی اسرائیلی ریاست کی حمایت میں ایران کے خلاف خطے کے “عرب” ممالک کے درمیان نگرانی کے دفاعی نظام کی تشکیل کے بارے میں بعض مسآئل بیان کئے ہیں، اور توقع ہے کہ بائڈن کے دورے میں اس مسئلے پر بھی غور ہوگا۔
بائڈن کے دورے کا دوسرا نکتہ “ایران”
اس دورے کا دوسرا اہم نکتہ ایران ہے، جس کی طرف بائڈن نے اپنے مضمون میں بھی اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سعودی دورے میں اس موضوع پر غور ہوگا۔
بائڈن نے اپنے مضمون میں ایرانی پارلیمان کے منظور کردہ قانون کی طرف بھی اشارہ کرکے لکھا ہے کہ جوہری معاہدے سے ٹرمپ انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد، کوئی بھی متبادل منصوبہ موجود نہیں تھا اور ایرانی پارلیمان نے معاہدے کے تحت ایران کی ذمہ داریوں کو کم کر دیا ہے۔
اس سے پہلے جب ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف عالمی سطح کا اتحاد قائم کرنا چاہا تو اسے شکست ہوئی، اور زیادہ تر ممالک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ ٹرمپ کا یہ اعتراف بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔
بعض مغرب نواز پارلیمان کے قانون سے ناراض نظر آتے ہیں لیکن بائڈن کا اعتراف ہے کہ معاہدے سے امریکی علیحدگی کے رد عمل کے طور پر قانون منظور کرنا ایران کا حق تھا اور دوسرے ممالک کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے بجائے ایران کی حمایت کریں۔
سعودی عرب امریکہ کی شیردار گائے
بائڈن عملی طور پر امریکیوں کی شکست کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اگر جوہری معاہدے کے تحت ایران سے رعایتیں نہ لے سکیں اور اس معاہدے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کسی بھی وجہ سے سمجھوتے پر منتج نہ ہوئے تو دوسرے ذرائع اور اوزاروں سے ایران پر دباؤ بڑھ کر رعایتیں حاصل کرنے کی امید رکھیں! یہ البتہ امریکیوں کا منصوبہ ہے لیکن جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایران کے خلاف ان کے تمام تر منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، یہ منصوبہ بھی ابھی سے ناکام ہوگا یہ پہاڑ کھود کر پھر بھی امریکیوں کو چوہا ہی ملے گا۔
بائڈن کے دورے کا تیسرا اہم نکتہ
امریکہ سعودی حکومت کو شیردار گائے سمجھتا ہے اور اسے اعلانیہ بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، اور اس دورے کا تیسرا نکتہ بھی سعودی قبیلے کی حکومت ہے۔ امریکہ میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہؤا ہے، چنانچہ امریکی “پسند کرتا ہے” کہ شیردار گائے سمیت خلیج فارس کی تمام عرب ریاستیں اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں تاکہ تیل، گیس اور پیٹرول کی قیمت میں قدرے کمی آئے، اور یوں بائڈن کے دورے کا ایک ہدف حاصل ہو جائے۔
خطے میں تیل کی پیداوار میں اضافہ امریکہ کے بنیادی مسائل حل نہیں کرے گا
امریکی سروے رپورٹوں کے مطابق، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت جو بائڈن کی سیاسی حالت سے کہیں بہتر ہے اور اگر آج ہی صدارتی انتخابات منعقد کرائے جائیں تو ٹرمپ جیت جائے گا۔ اور اس میں شک نہیں ہے کہ اگر خطے کے ممالک امریکی دباؤ کے تحت مزید تیل پیدا کر سکیں، پھر بھی امریکہ کو درپیش بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے۔
یوکرین کے مسئلے میں اور روس کے خلاف مغرب کی جنگ جاری رکھنے پر بائڈن کا اصرار ایک غلط پالیسی ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود ان ہی کو پہنچے گا۔
کیا امریکہ کے روایتی حلیفوں کا اجماع [چوتھا ہدف] حاصل ہوسکے گا؟
عالمی حالات اور یوکرین کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بائڈن انتظامیہ ان ممالک کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی ہے جو روایتی طور پر امریکہ کے اتحادی تھے لیکن اب بکھر چکے ہیں۔ یہ امریکہ کے وہ اتحادی ہیں جو حالیہ برسوں میں اس خطے میں بکھر چکے ہیں اور بائڈن انتظامیہ کو ان کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور انہیں روس، چین وغیرہ کے مقابلے پر آ کھڑا کریں۔ یہ امریکی صدر کے دورہ سعودیہ کا اگلا ہدف ہے۔
یہ سب ہیں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
خطے کے دورے میں بائڈن جو کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ سب امریکیوں کی خواہشیں اور آرزوئیں ہیں۔ انھوں نے اپنی ان خواہشوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جن کو حالیہ برسوں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔ اور آج چونکہ امریکہ تیزی سے زوال کی طرف رواں دواں ہے اور بائڈن کی مقبولیت کا گراف 30 فیصد سے بھی کم ہو چکا ہے؛ چنانچہ بعید از قیاس ہے کہ ان کے مقاصد اور خواہشیں برآوردہ ہو سکیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا امریکہ چل بسا ہے۔ جس وقت امریکہ اپنی طاقت کے جوبن پر تھا اور اس کی طاقت آج سے کہیں زیادہ تھی اور اس کے دشمن بہت کمزور تھے تب بھی وہ اپنے متعینہ اہداف حاصل کرنے سے عاجز تھا، چہ جائے کہ آج، جبکہ اسے اندرونی اور بیرونی سطح پر سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔
بہرحال امریکیوں نے اپنی خواہشوں کی جو فہرست ایران، سعودی عرب اور یہودی ریاست کے لئے تیار کرلی ہے جن تک پہنچنا بہت آسان نہیں ہے۔
عرب کٹھ پتلیوں کو نئے باس کی تلاش ہے! گرتے کو گرتے کا سہارا = نیا عربی قاعدہ!
صرف امریکی اور غیر امریکیوں نے نہیں بلکہ امریکہ کے غلام عرب حکمران بھی اس یقین تک پہنچے ہیں کہ امریکہ زوال و انحطاط کا شکار ہے، چنانچہ انہیں اب نئے باس کی تلاش ہے۔ اپنے عوام کو غلام سمجھنے والے عرب حکمرانوں کو باس (Boss) کے سائے میں سانس لینے کی عادت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اپنی پوزیشن کھو چکا ہے، اور انہیں نئے باس کی تلاش ہے لیکن ان کی بدقسمتی دیکھئے کہ وہ گرتی پڑتی صہیونی ریاست کو امریکہ کا متبادل اور اپنا نیا باس سمجھنے لگی ہیں! حالانکہ اسرائیلی ریاست اس وقت کومے میں ہے اور اسے امریکی حمایت (بطور اکسیجن) چاہئے، چنانچہ دوسری جماعت کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ غاصب صہیونی ریاست فطری طور پر امریکی زوال سے پہلے ہی زوال پذیر ہوگی۔
عرب کٹھ پتلیاں اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں کہ صہیونیوں کو سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے اور اپنے امن کے تحفظ سے بھی بالکل بے بس ہیں، اسے خود بیرونی امداد کی ضرورت ہے، اور قطعی طور پر وہ کسی اور کی حمایت نہیں کر سکتا اور گرتا گرتے کا سہارا نہیں لیتا اور گرتا گرتے کی مدد نہیں کرسکتا۔
ادھر اگر فرض کیا جائے کہ صہیونی طاقتور ہیں اور صہیونی سپاہی ان کی پشت پناہی کریں گے اور عرب شہزادوں کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے، تو اور بھی بہت عجیب ہے، کیونکہ اسرائیلی سپاہیوں نے حزب اللہ اور حماس و جہاد اسلامی کے ساتھ جھڑپوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ حتی کہ “اسرائیلی کاز” کے لئے بھی جان دینے کے روادار نہیں ہیں۔ بہرحال عرب شہزادے جلدی یا بدیر سمجھ ہی لیں گے کہ وہ کس خبط میں مبتلا ہیں، اور امت مسلمہ کے ساتھ کیا کیا خیانتیں کر رہے ہیں۔
گوکہ عرب حکمرانوں کو اپنی اندرونی طاقت اور اپنے ہی عوام سے رجوع کرکے موجودہ حالات کا انتظام و انصرام کرکے اپنے ممالک کو آنے والے چیلنجوں سے بچانا چاہئے، لیکن وہ ایسا کرنے کے بجائے غلط راستے پر چل پڑے ہیں اور امت کے اتحاد کا راستہ اپنانے کے بجائے قبلہ اول کے غاصب صہیونیوں کے بغل میں جا بیٹھے ہیں، چنانچہ غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی عنقریب ٹوٹ جانے کے ساتھ ہی، ان کی اپنی بنیادیں بھی اکھڑ جائیں گی اور یقینا اس خطے کی صہیونی کینسر سے نجات کے ساتھ ہی ان ممالک کے عوام بھی قبائلی آمریتوں سے چھٹکارا پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں