ناجائز اسرائیلی ریاست خطے کے ممالک کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے سے عاجز کیوں؟

حالیہ مہینوں میں مغربی ایشیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف سے عرب ممالک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف سے مغربی سفارتکار ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے احیاء میں حائل رکاوٹیں ہٹنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں؛ جس کی وجہ سے تل ابیب کی جعلی ریاست کو تشویش لاحق ہوئی ہے اور اس نے "ابراہیمی امن منصوبے" نامی سازش کے نفاذ کو ملتوی کر دیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی ریاست ظاہری طور پر بہت سے ممالک کے ساتھ – دھوکہ دے کر یا خوفزدہ کرکے، – سفارتی تعلقات قائم کر سکتی ہے مگر یہ تعلقات گہرے نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ریاست جعلی اور بناوٹی ہے اور خطے کے عوام اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ڈاکٹر سعد اللہ زارعی کے ساتھ جام جم آنلاین کا انٹرویو
حالیہ مہینوں میں مغربی ایشیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف سے عرب ممالک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف سے مغربی سفارتکار ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے احیاء میں حائل رکاوٹیں ہٹنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں؛ جس کی وجہ سے تل ابیب کی جعلی ریاست کو تشویش لاحق ہوئی ہے اور اس نے “ابراہیمی امن منصوبے” نامی سازش کے نفاذ کو ملتوی کر دیا ہے۔ اسی اثناء میں یوکرین کی جنگ کے سائے بھی مغربی ایشیا کی صورت حال پر منڈلا رہے ہیں اور اس جنگ نے بین الاقوامی تعلقات کے قواعد کو تبدیل کردیا ہے اور ایک نئے کھیل کا آغاز ہؤا ہے جس میں نئے کھلاڑی بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

سوال: یوکرین کی جنگ کو پانچ مہینے ہو چکے ہیں اور یہ جنگ بدستور جاری ہے۔ اس جنگ نے مغربی ایشیا پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟
جواب: یوکرین کی جنگ درحقیقت مغرب کے خلاف مغرب کی جنگ ہے۔ یہ گذشتہ 230 برسوں میں یورپ میں لڑی جانے والی ستترویں جنگ ہے؛ یعنی یہ کہ 230 سالوں کے دوران یورپ نے اوسطاً ہر تین سال میں ایک جنگ لڑی ہے۔ عالمی جنگ میں آٹھ کروڑ انسان کام آئے اور چھوٹی جنگوں میں اس سے کم لوگ مارے گئے ہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ براعظم یورپ کی اوسط جنگوں کے زمرے میں آتی ہے (جانی نقصان کے لحاظ سے بھی اور مدت کے لحاظ سے بھی)۔ یقینا مغرب کے خلاف مغرب کی جنگ دوسرے ممالک کو سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے اور انہیں امکان دیتی ہے کہ ایک نئی فضا میں محاذ بندیوں اور گروہ بندیوں میں اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کریں۔ یہ مسئلہ یوکرین اور مغربی ایشیا کے مسائل پر بھی صادق ہے۔ اس وقت ہمارے خطے میں سیاسی رجحانات کا ایک سلسلہ ابھرا ہے جس کی بنیاد یہ خواہش ہے کہ کس کو اس جنگ میں جیتنا چاہئے اور کس کو ہارنا چاہئے۔
ابتدائی تصور روس کی فیصلہ کن فتح پر مبنی تھا اور یہ تصور بعد میں معتدل ہوکر روس کی نسبتی فتح کے تصور میں بدل گیا۔ فیصلہ کن فتح کے تصور کے غلبے کے دوران عربی محاذ کے تعلقات و تعاملات میں ایک تبدیلی سامنے آئی اور روس اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کا رجحان بڑھ گیا لیکن جب یہ تصور تبدیل ہؤا تو یہ سوال اپنی جگہ باقی رہا کہ مستقبل کس فریق کا ہے اور کس فریق کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینا چاہئے؟ اس مسئلے نے بحیثیت مجموعی مغربی ایشیا پر اچھے اثرات مرتب کئے۔ یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ خطے کے ممالک کے تنفّس کی فضا پہلے سے زیادہ کھل گئی ہے اور بہت سے موضوعات میں نظرثانی کا امکان فراہم ہو چکا ہے۔
اس عرصے میں ایران اور خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے ہیں، ان دنوں دوطرفہ وفود کے تبادلوں اور دوروں میں زبردست اضافہ ہؤا ہے۔ ایران برکس (BRICS) تنظیم کی رکنیت حاصل کررہا ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحال ہو رہے ہیں؛ اور یہ سب ایک لحاظ سے یوکرین کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ جو ممالک مغرب کی حمایت کو ہی “سب کچھ” سمجھتے تھے، رفتہ رفتہ سمجھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ ماضی جیسی افادیت کھو چکے ہیں، چنانچہ وہ کسی حد تک اپنے رویوں اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔
سوال: کیا اس جنگ کا حل سیاسی ہے یا فوجی؟
جواب: اس وقت یہ جنگ فوجی اور سلامتی کی حدود میں لڑی جا رہی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حتیٰ جنگ کے دوران بھی سفارتکاری کو معطل نہیں کیا جاتا اور سفارتکاری کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس جنگ میں بیک وقت جنگ بھی نظر آ رہی ہے اور سفارتکاری بھی۔ روس یوکرین سمیت کئی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ جنگ بھی آخرکار سیاسی حل کے ذریعے اختتام پذیر ہوتی ہے۔ فطری امر ہے کہ جنگ کو ہمیشہ سفارتکاری کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اس جنگ کا حل بھی بالآخر سفارتکاری ہی ہے۔ لیکن یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ روس اس جنگ میں نسبتی کامیابی حاصل کرکے یوکرین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکا ہے، اور یہ ابتدائی فتح ہے اور روس اسی کامیابی پر اکتفا کرکے مذاکرات کے ذریعے جنگ کو ختم کر سکتا ہے۔
سوال: اس جنگ میں ایران کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
سیاست کی دنیا میں ایک نظریہ ہے کہ “ہمارا دشمن ہمارا دوست ہے”، یہ نظریہ یہاں صادق آتا ہے۔ ہم نے اس جنگ میں اپنا موقف بیان کیا، جنگ کو مسترد کیا اور اسی اثناء میں مغرب کو اس جنگ کی جڑ قرار دیا۔ ہم ان چند ہی ممالک میں سے تھے جنہوں نے پہلے 24 گھنٹوں میں ہی اپنا دوٹوک موقف اپنا لیا۔ ہمارا یہ موقف ایک طرف سے روس اور یوکرین کے مفاد میں ہے۔ کییف اور ماسکو کی جنگ کی اصل جڑ روس نہیں بلکہ مغرب ہے اور ہمارا یہ موقف روس کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ روس اور یوکرین دونوں – ایک حد تک – ہم سے خوش ہیں۔ ہم روس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں؛ بلا شبہ ہم یوکرین کی نسبت، روس کے ساتھ زیادہ قریب ہیں۔ کیونکہ ایک طرف سے یوکرین مغربی بلاک میں کھڑا ہے اور مغربی بلاک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں گرم جوشی نہیں پائی جاتی، اور روس مشرقی بلاک میں واقع ہؤا ہے اور مشرقی بلاک کے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے خاصے ہیں۔ اور پھر ایران کی ضروریات کی تکمیل کے لئے روس جتنے ملک کی ضرورت ہے نہ کہ یوکرین جتنے ملک کی۔ چنانچہ فطری لحاظ سے ہم روس کی طرف ہی دکھائی دیتے ہیں اور اس عمل میں بھی روسی ہی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جس کی مدد سے ہم روس کے ساتھ مختلف مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں؛ اور بات چیت کر بھی رہے ہیں۔ اور ایران اور روس کے درمیان گفتگو اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

 

جاری