کیا امریکہ اسرائیل کی نابودی کے اسباب فراہم کر رہا ہے؟

ان تمام حالات اور مراحل کا حاصل یہ ہے کہ ایک طرف سے اسلامی مقاومت کے طاقتور ہونے کے ساتھ اسرائیل کی فیصلہ کن بیرونی مخالفت سامنے آتی ہے اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کے اندر بھی بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جو اسے اندر سے منہدم کر رہے ہیں؛ خواہ بیرونی عوامل نہ بھی ہوں؛ تیسری طرف سے اسرائیل کو تقویت پہنچانے والے عناصر زوال پذیر ہوچکے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ:گزشتہ سے پیوستہ

سوال: آپ نے فرمایا کہ امریکہ اسرائیل کی طاقت کا سرچشمہ ہے مگر یہ اسرائیل کی کمزوری کے اسباب بھی فراہم کر سکتا ہے، امریکہ کے اس متضاد کردار کو کیونکر واضح کیا جا سکتا ہے؟
امریکہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ (مشرق وسطیٰ) کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر، یہاں سرگرم موجودگی کا خواہاں ہے۔ امریکہ نے مورخہ 19 اگست 1953ع‍ کو ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کروانے کے بعد ایران کو مرکز بنا کر مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلتوں کا آغاز کیا۔ نکسن کی جڑواں ستونوں کی پالیسی (Twin Pillars Policy) بھی اسی تناظر میں مرتب کی گئی [اور ایران اور سعودی عرب کو خلیج فارس کے علاقے میں امریکی مفادات کے دو محافظ قرار دیا گیا]۔ اس عرصے کے دوران ایران کے ساتھ امریکی مداخلت پسندانہ تعلقات نے امریکی توانائی کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی اور خطے میں امریکی نظم و نسق اور طاقت کے استعمال کو ممکن، بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے ایک لحاظ سے اسرائیل کی سلامتی کے تحفظ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کا ہدف قرار دیا۔
گوکہ صہیونیت استعمار کی ناجائز اولاد تھی، لیکن یہ مغرور اولاد اتنی طاقتور ہوئی کہ اس نے بوڑھے سامراجیوں [یعنی برطانویوں] کو اپنے عزائم کے حصول کے لئے اپنی مدد پر آمادہ کیا۔ فلسطین میں صہیونی ریاست کی تاسیس – جو کہ ایشیا اور افریقہ کا نقطۂ اتصال ہے – بحیرہ روم، بحیرہ قلزم اور مشرق وسطیٰ پر مغربی سامراجیوں کی دیدبانی کو میسر کر سکتی تھی؛ چنانچہ مغرب اسرائیل کا حلیف اور اتحادی بنا۔ لیکن صہیونی دوسرے راستوں سے بھی مغربی بیوپاروں کے استعماری حلقوں میں شراکت دار تھے۔ اسرائیل نے ماسونی نیٹ ورکس کی مدد سے سیاسی اور جماعتی دھاروں میں اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور بینکاری نظامات میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے، دنیا کے محروم ممالک پر مغربی تسلط کے لئے ایک دیدہ و دانستہ بنیاد فراہم کی۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور یورپ کا کردار دوسری طاقتوں کی نسبت زیادہ نمایاں تھی۔ امریکہ اپنے آپ کو اسرائیل کے تحفظ کا پابند سمجھتا ہے اور اس کی توانائی کی ضروریات بھی یہیں سے پوری ہوتی ہیں چنانچہ وہ ان دو مقاصد کی تکمیل کے لئے اس خطے میں آ موجود ہؤا ہے۔ یورپ کے پاس بھی اس خطے میں موجودگی کے لئے کافی سارے دلائل ہیں جن میں بعض میں امریکہ بھی شریک ہے، اور بعض دوسرے دلائل صرف یورپ تک محدود ہیں، جیسے اس کی سامراجی تاریخ اور یہاں کی توانائی پر انحصار۔
البتہ یورپ اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کے اور ممکنہ اتحاد سے پیدا ہونے والی بڑی قوت کے باوجود، ان کے پاس خطے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے امکانات بہت کمزور ہیں؛ جس کی وجوہات حسب ذیل ہیں:
– ایسے حال میں کہ بہت سے ممالک عبوری دور سے گذر رہے ہیں، بہت سی شخصیات اور ادارے، جن کے ساتھ مغرب نے رابطہ جوڑا ہؤا تھا، سیاسی اور سماجی منظرنامے سے مٹ گئے ہیں۔
– خطے کی موجودہ کیفیت بہت زیادہ متغیر اور غیر مستحکم ہے اور سیاست ابھی تک ان ممالک میں ایک ایسی مستحکم صورت اختیار نہیں کر سکی ہے جس کا پہلے سے اندازہ لگایا جا سکے اور اسے منصوبہ بندی کی بنیاد بنایا جاسکے اور مغربی دنیا اس صورت حال پر اعتماد کر سکے۔
– مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اسرائیل کی ہی پیدا کردہ شدت پسندی ایک ہم آہنگ اور مربوط پالیسی سازی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے؛ اور پھر مغرب کو ان انتہاپسندوں کی واپسی اور استقبال کے لئے بھی تیاری کرنا پڑ رہی ہے جو یورپی شناختی دستاویزات کے حامل ہیں اور اس خطے میں دہشت گردوں کے دوش بدوش لڑ رہے ہیں یا لڑتے رہے ہیں۔
– ایسے حال میں کہ واشنگٹن کو نہایت دشوار فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں، لگتا ہے یہ ملک اپنی اہمیت کا بڑا حصہ کھو چکا ہے۔ اس حقیقت کو – سیاسی تبدیلیوں پر اس ملک کا غیر مربوط رد عمل، واشنگٹن کی اپنی متعین کردہ سرخ لکیروں سے عبور کرنا، اصولی پالیسیوں سے دستبردار ہونا، شام میں فوجی کارروائی کا وعدہ دے کر پسپا ہوجانا، ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ دائمی رکن ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات سے سعودی عرب اور اسرائیل کی ناراضگی، میں – بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس صورتحال کے مجموعی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اب طاقت کے توازن کی نئی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ایک اہم عالمی تجربہ گاہ ہے، جو آنے والی دہائیوں کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ بلاشبہ، طاقت کے اس توازن میں، اجنبی قوتوں کا کردار ماضی کے مقابلے میں کافی کمزور ہے، اور نئی علاقائی طاقتیں ابھر رہی ہیں جو اجنبی قوتوں کے کردار کو محدود ہی نہیں بلکہ کنٹرول بھی کریں گی۔
اس صورت حال میں ایک طرف سے مشرق وسطیٰ میں ایران جیسی نئی علاقائی طاقتوں کی موجودگی میں امریکیوں کی فعالیت کی صلاحیت کمزور پڑ گئی ہے، دوسری طرف امریکیوں کے ہاں مشرق وسطیٰ کی اہمیت گھٹ گئی ہے۔ اسی صورت حال کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں موجودگی کے لئے امریکہ کی رغبت بھی کم ہو گئی ہے۔
امریکہ کے ساتھ مقابلے کے میدان میں اسلامی انقلاب کی استقامت، اپنے ہی یورپ اور مشرق وسطیٰ میں روایتی اور نئے اتحادیوں نیز چین اور روس کے ساتھ امریکہ کے گہرے روز افزوں اختلافات، خطے میں نئی قوتوں کی رونمائی اور مسلم ممالک کے عوام کی بڑھتی ہوئی بیداری خطے میں امریکی طاقت کے زوال کے اہم ترین اسباب ہیں اور امریکی طاقت کا زوال قطعی طور پر جرائم پیشہ صہیونی ریاست کو طاقتور ہونے سے روک دے گا۔
عالمی استکبار کے سرغنے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کی فرسودہ اور گھسی پٹی پالیسیاں مزید کارگر نہیں رہی ہیں؛ اور خواہ وہ پسند کریں خواہ پسند نہ کریں، خطے میں امریکی طاقت زائل ہو چکی ہے۔
خطے کی غیر متنازع فیہ (Undisputed) طاقت ایران کے اسلامی انقلاب اور اس کے بلند و بالا نظریات و اہداف کی بے مثل قوت ہے، جس کا اعتراف تمام عالمی طاقتیں بھی کرتی ہیں اور اس کے پربرکت اثرات خدا کے فضل سے “بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک نئے عہد و عصر” کو رقم کریں گے۔
یہ کہ سی آئی اے نے 2025ع‍ میں جعلی ریاست کی نابودی اور زوال کی پیشین گوئی کی ہے، یہ اس لئے نہیں ہے کہ امریکہ اس کی سلامتی اور بقاء کے لئے فکرمند ہے بلکہ یہ پیشین گوئی مغربی ایشیا کو غیر اہم سمجھنے کے حوالے سے واشنگٹن کی نئی پالیسی کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تل ابیب اور واشنگٹن کے حکام کے درمیان اختلاف کی بنیاد ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک اوزار اور ایک بہانہ ہے۔ ان دو کے درمیان بنیادی اختلاف یہ ہے کہ واشنگٹن رفتہ رفتہ اپنے مفادات کو بحرالکاہل اور مشرقی ایشیا میں دیکھنے لگا ہے اور امریکہ اپنی تزویراتی پالیسیوں کے مرکز ثقل اس خطے سے منتقل کرکے لا محالہ صہیونی ریاست کی ہمہ جہت سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا [اور یہ خطرہ دوسرے تمام خطروں سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوگا اور صہیونیت کے زوال میں بنیادی کردار ادا کرے گا]۔
چنانچہ ایران کے طاقتور ہونے کی بنا پر، امریکہ مشرق وسطیٰ میں پہلے کی طرح آسانی سے منصوبہ بندیاں نہیں کر سکتا اور آزادانہ فعالیت نہیں کر سکتا۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران مشرق وسطیٰ کو اسلامی اور صہیونی مخالف تشخص کے ساتھ مرتب اور منظم کرتا ہے اور امریکہ – جو مبینہ طور پر اسرائیل کی سلامتی اور بقاء کے لئے اس خطے میں آیا تھا – مزید ایسا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اور یوں ایران کی طاقت اور مشرق وسطیٰ میں اس کے بنیادی کردار کی وجہ سے اسرائیل محدود ہوجائے گا [اور یہ جعلی ریاست جس کی بقاء کا ایک بنیادی اصول مسلسل جارحیت لگاتار جنگ و نزاع ہے، مزید سانس نہیں لے سکے گی اور اپنی منطقی انجام تک پہنچ جائے گی]۔
* جو کچھ آپ نے کہا، براہ کرم اس کا خلاصہ بیان کریں۔
ان تمام حالات اور مراحل کا حاصل یہ ہے کہ ایک طرف سے اسلامی مقاومت کے طاقتور ہونے کے ساتھ اسرائیل کی فیصلہ کن بیرونی مخالفت سامنے آتی ہے اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کے اندر بھی بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جو اسے اندر سے منہدم کر رہے ہیں؛ خواہ بیرونی عوامل نہ بھی ہوں؛ تیسری طرف سے اسرائیل کو تقویت پہنچانے والے عناصر زوال پذیر ہوچکے ہیں یعنی امریکہ – جو اسرائیل کو بیرونی سطح پر تقویت پہنچاتا ہے- ایران کی ابھرتی ہوئے روزافزوں طاقت کے سامنے، خطے کی غیر متنازعہ طاقت کے طور پر کوئی کردار ادا کرنے سے عاجز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غاصب اسرائیل ایک طرف سے اپنے بیرونی حامی سے محروم ہو رہا ہے اور دوسری طرف سے اسے خطرے میں ڈالنے والے بیرونی عوامل مسلسل طاقتور ہو رہے ہیں۔ کمزوری اور اندرونی تنزلی اور انہدام کے عوامل بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام حالات و حقائق کا حاصل یہ ہے کہ اسرائیل 25 سال تک باقی نہیں رہ سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی کا یہ انٹرویو مورخہ 3 نومبر 2015ع‍ کو قدس آنلائن میں شائع ہؤا ہے لیکن چونکہ تجزیہ آج بھی نیا ہے اور پھر اردو ترجمے میں اسے اپڈیٹ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
1۔ دو روزہ جنگ: مورخہ 12 نومبر سنہ 2018ع‍ اسرائیلیوں نے جنگ کا آغاز کیا لیکن صرف 48 گھنٹے بعد امن کی بھیک مانگتے ہوئے مصر وغیرہ کے ذریعے جنگ بندی کروائی۔ اس جنگ میں صہیونیوں کو پہنچے ہوئے تمام مالی نقصانات کا ازالہ متحدہ عرب امارات نے کیا!
12 روزہ جنگ: مئی 2021 میں 12 روزہ سیف القدس نام کی فلسطینیوں کی کاروائی؛ یہ پہلی لڑائی تھی جسے فلسطینیوں نے شروع کیا اور سینکڑوں میزائل داغ کر صہیونیوں کو دنوں کو ستارے دکھائے اور انہیں جنگ بندی کے لئے امن کی بھیک مانگنے میں عافیت سمجھی۔

https://www.qudsonline.ir/news/320197/