یہودیت میں عورت کی حیثیت؛

کیا یہودی عورت کو مال و متاع یا مال مویشی سمجھتے ہیں؟ 3

یہودی مرد صبح کی دعا میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ خدا نے انہیں عورت نہیں بنایا ہے۔ تحریف شدہ یہودی مذہب میں لڑکی ایک "متاع" ہے جس تنگدستی کے ایام میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ لڑکیوں کی خرید و فروخت کی انتہائی گھناؤنی روایت بنی اسرائیل میں وسیع پیمانے پر رائج رہی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

عورت شوہر کی متاع ہے
یہودی دائرۃ المعارف کے مطابق، عورت اپنے شوہر کی متاع اور سرمایہ سمجھی جاتی ہے، اور زنا شوہر کے بیوی پر انحصاری استحقاق کی پامالی سمجھی جاتی ہے؛ لیکن چونکہ بیوی شوہر کی ملکیت ہے لہٰذا وہ اپنے شوہر پر اس طرح کا حق نہیں رکھی۔
دوسرے لفظوں میں، اگر ایک مرد ایک شادہ شدہ عورت سے جنسی تعلق برقرار کرے تو اس نے درحقیقت دوسرے مرد کے سرمائے پر ڈھاکہ ڈالا ہے، اور وہ اسی بنا پر سزا کا مستحق ہے۔
آج کے زمانے، جعلی اسرائیل میں اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی غیر شادی شدہ عورت سے ناجائز جنسی تعلق بنائے اور وہ عورت ماں بنے، تو ان دو کی یہ اولاد مشروع اور حلال سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اگر ایک شادی شدہ عورت غیر مرد سے ایسا ہی تعلق بنائے، خواہ وہ مرد غیر شادی شدہ ہو خواہ شادی شدہ ہو، ان کی اولاد نہ صرف حرام زادہ (اور ناجائز) سمجھی جائے گی بلکہ وہ [بچے] کسی بھی یہودی سے شادی نہیں کر سکیں گے، سوا اس کے کہ اپنا مذہب تبدیل کریں یا اولاد زنا سے شادی کریں۔ یہودیوں کے ساتھ شادی پر یہ ممانعت دس نسلوں تک قائم رہے گی؛ یہاں تک کہ “بدنامی یا یہ دھبہ دھل جائے”۔
خاندان میں بھی امتیاز / شوہر بیوی کا مالک
کتاب مقدس کی تعلیمات کے مطابق، مرد کو خدا کے ساتھ اپنے ہر عہد و پیمان کا وفادار رہنا چاہئے، اور عہد شکنی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن عورت پر عہد و نذر کی وفا لازم نہیں ہے بلکہ اگر وہ باپ کے گھر میں رہتی ہے تو اس کے عہد و نذر سے اس کے باپ کا اتفاق کرنا لازمی ہے؛ اور اگر شادی شدہ ہے تو اسے شوہر کو راضی کرنا ہوگا اور اگر وہ (باپ یا شوہر) اس کی نذر اور عہد و پیمان کو قبول نہ کریں، تو نہ وہ نذر معتبر ہوگی نہ ہی وہ عہد و پیمان۔ یہودی مکتب نے بیوی کی شوہر کی سرپرستی کو ملکیت تک پھیلا دیا ہے۔
یہودی سنت میں بیوی کی نسبت شوہر کی ذمہ داری اس تصور سے جنم لیتی ہے کہ شوہر بیوی کا مالک ہے جس طرح کہ وہ اپنے غلام یا کنیز کا مالک ہے۔ یہ اس حقیقت کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ زنا کے قوانین، شوہر کو حاصل بیوی کے عہد و پیمان اور نذر و منت کی منسوخی کے حق، کے سلسلے میں، عورت کے ساتھ ہمہ جہت امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ یہ امتیازی تصور عورت کے اپنے مال و متاع یا امدنی پر بھی، اس کے اختیار کو چھین لیتا ہے۔ عورت کے پاس جتنی بھی دولت ہو، اور اس کی جتنی بھی ماہانہ یا سالانہ آمدنی ہو، شادی کرتے ہی وہ ان کی مالکیت سے محروم ہوجاتی ہے اور شوہر ان کا ہولی سولی مالک بن بیٹھتا ہے۔
بے شمار عورتوں سے شادی
بے شمار عورتوں سے شادی کرنا یہودیت میں جائز ہے اور اس کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہوئی ہے۔ یہودیوں کی کتاب “تلمود” کا حکم ہے کہ “تم جتنی عورتوں کا نان و نفقہ اور لباس وغیرہ برداشت کرسکو، اتنی ہی عورتیں رکھ لو” اور توریت میں بھی کئی شادیاں کرنے پر بات ہوئی ہے لیکن نئی عورت سے شادی کی شرط یہ ہے کہ پہلی بیوی کی خوراک، پہناوے اور مباشرت کو کم نہ کیا جائے۔ تلمود میں زیادہ سے زیادہ چار عورتیں رکھنے کا حکم ہے۔ سولہویں صدی عیسوی تک یورپی یہودیوں نے کئی عورتوں سے شادی کی روایت کو جاری رکھا۔ جبکہ مشرقی (ایشیائی) یہودی اس روایت پر بدستور عمل پیرا تھے یہاں تک کہ فلسطین کو غصب کیا گیا اور یہاں اسرائیل نامی یہودی ریاست قائم کی گئی اور ایشیائی یہودی اس جعلی ریاست میں داخل ہوئے؛ اور اسرائیل کے شہری قانون (civil law) کی بنا پر یہ روایت ممنوع قرار دی گئی۔ گوکہ یہودی شریعت کی رو سے، جو اس طرح کے مسائل میں شرعی قوانین شہری قانون سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، یہ روایت آج بھی مُجاز ہے۔
عورت کا فلسفۂ خلقت
یہودی کتاب مقدس میاں بیوی کے فرائض اور حقوق کے تعین میں، جنسی امتیاز کی قائل ہے اور مرد کو اس لئے کہ مرد ہے، عورت کی سربراہی اور سرپرستی عطا کرتی ہے۔ توریت کی نظر میں دوسرے درجے کی جنس ہے اور مرد کے جسم سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی خلقت کا مقصد ہی مرد کے ساتھ ہم نشینی اور اس کی مساعدت ہے۔
توریت کے مطابق، خاندان میں عورت کی ذمہ داری بچے جننے اور شوہر سے محبت تک محدود ہے: اور خدا نے عورت سے کہا: “پھر خدا نے عَورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤنگا۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیرا اشتیاق تیرے شوہر کی طرف ہوگا اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا”۔ (کتاب پیدائش، باب 3، آیت 16)۔
عورت کو اطاعت کی تعلیم دو
یہودیوں کی کتاب مقدس میں مرد ہی گھرانے کی بنیاد اور ستون ہے اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اطاعت کرے، کیونکہ عورت کا وجود مرد کا طفیلی اور مرد پر منحصر ہے: “اور ضروری ہے کہ عورت سکون و آرام اور اطاعت کی تعلیم پائے، اور عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، اس لئے کہ وہ مرد کی ماتحت ہو، بلکہ بالکل خاموش رہے، کیونکہ پہلے آدم پیدا ہوئے اور ان کے بعد حوا کی تخلیق ہوئی”۔
نان و نفقہ کی فراہمی مرد کے ذمے
توریت میں مرد کو صراحت کے ساتھ عورت کا نان و نفقہ دینے کا فریضہ سونپ دیا گیا ہے اور اس کی بات کی جڑ قانون میں پیوست ہے۔ ایک قسم کا شخصی عہد بھی دین یہود میں پایا جاتا ہے کیونکہ شادی کے وقت مرد اپنی بیوی سے کہتا ہے: “میں نے تجھے اپنے حبالۂ نکاح میں داخل کردیا اور خدا کی مدد سے، جب تک کہ ازدواجی رشتہ قائم رہے گا، تیری تمام ضروریات اور زندگی کے معمول کے لوازمات کی فراہمی اپنے ذمے لیتا ہوں”۔
بچوں کو توریت کی تعلیم دینا ضروری ہے
یہودی تعلیمات میں بچوں کو تعلیم و تربیت دینے اور توریت سکھانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہودی قوانین کے مجموعے ہلاخا (Halakha) کے مطابق، باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کو توریت سکھائے۔ لیکن یہ ذمہ داری صرف بیٹے کے لئے ہے اور بیٹی کے لئے نہیں ہے۔ جبکہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ جو شخص اپنی بیٹی کو توریت کی تعلیم دے، تو گویا اس نے اس کو فحش، ہرزہ، لغو اور بے معنی الفاظ سکھائے ہیں۔ چنانچہ یہودی علماء نے حکم دیا ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو توریت نہ سکھائے، کیونکہ زیادہ تر عورتوں کا ذہن اور اس کی عقل اس تعلیم کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، اور وہ توریت کا کلام ضائع کرتی ہیں۔
تو پھر عورت توریت کی خدمت کیونکر کرسکے گی؟
عورتوں کے ہاں توریت کی خدمت اور تعلیم کے ساتھ اس کے تعلق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عورتیں اپنے شوہر اور بیٹوں کی خدمت کرکے، اور گھر کو ان کے لئے تیار کرکے، اور انہیں توریت اور تلمود سکھانے کی ترغیب دلا کر، اور شام کو ان کی واپسی پر ان کا استقبال کرکے۔۔۔ توریت کی خدمت کرتی ہیں اور اجر و ثواب عظیم کماتی ہیں۔
معاشرے کے انتظام و انصرام میں عورت کا کردار
معاشرے کے انتظام و انصرام اور معاشرتی امور میں اس کی شراکت داری کے سلسلے میں یہودی تعلیمات کے مبلغین اور پیروکاروں کا خیال تھا کہ عورتوں کو ایسے سونپنا جائز نہیں ہے جن کے لئے معاشرے میں زیادہ متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہو۔ نیز کہا گیا ہے: “اے میری قوم! ہرگاہ تمہارے زعماء بچے اور تمہارے حکمران عورتیں ہوں، وہ تمہیں گمراہی اور نابودی کی طرف دھکیلیں گی”۔ فقہ یہود کا حکم بھی یہی ہے جس کی وجہ سے عورتوں کو حکمرانی اور سربراہی کا حق حاصل نہیں ہے۔
عورت مرد کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے / بھونڈی توہین
توریت کی رو سے، عورت مرد کے جسم کے ایک ٹکڑے کے طور پر خلق ہوئی ہے اور ہمیشہ کے لئے مرد سے وابستہ ہے یعنی یہ کہ ابتدائے خلقت میں عورت ناقص تھی۔
کبھی اس سے بھی بڑھ کر، ایک نہایت بھونڈی توہین کرتے ہوئے، اس بات کے قائل ہیں، کہ عورت ایک حیوان ہے جو حیوانات سے زیادہ، انسان کی ہم شکل ہے۔ دوسرے لفظوں میں عورت انسان اور حیوان کے درمیان ایک برزخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ خدائے یہود (یہوہ) کا خیال تھا کہ خدا دس فرمانوں () کی آخری شق میں عورتوں کو چوپایوں اور مال مویشیوں کے زمرے میں قرار دیتا تھا۔ یہودی قوم تمام جنگ پرست اقوام کی طرح عورت کو مصیبت اور بدبختی کی علامت سمجھتی تھی۔
لڑکا لڑکی سے برتر ہے
دین یہود میں عورت دوسرے درجے کی مخلوق ہے۔ پوری “کتاب مقدس مردانہ” ہے اور عورت کا کردار بہت محدود اور کم اہمیت کا حامل ہے۔ تحریف شدہ مقدس کتابوں میں عورت اور لڑکی عار اور شرم کا باعث ہیں۔ تلمود کی تعلیمات میں لڑکی پر لڑکی کی برتری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ “لڑکا والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہے، وہ بڑھاپے اور ضعف کے زمانے میں ان کی مدد کر سکتا ہے اور پھر وہ ایک مشہور عالم و دانشور بھی بن سکتا ہے ماں باپ کی خواہشات کو پورا کر سکتا ہے؛ جبکہ لڑکی باپ کے لئے تشویش کا گنجینہ اور باپ اس کی طرف ہمیشہ فکرمند رہتا ہے، کہ کہیں طفولت کے زمانے میں کوئی اس دھوکہ نہ دے یا پھر بڑی ہوکر پاکدامنی سے منحرف نہ ہو جائے یا پھر جوان ہو کر کنواری نہ رہے”۔ یہ خرافاتی تصور جو یہودیت کی تحریف شدہ تعلیمات سے ماخوذ ہے، جو اس مذہب کی ابتداء سے ہی رائج رہا ہے۔ کتاب مقدس کی سِفرِ استثنا (یا تثنیہ) سے ثابت ہے کہ عورت کی شہادت (گواہی) اور قَسَم قابل قبول نہیں ہے۔
اور آخری بات یہ کہ یہودی مرد صبح کی دعا میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ خدا نے انہیں عورت نہیں بنایا ہے۔ تحریف شدہ یہودی مذہب میں لڑکی ایک “متاع” ہے جس تنگدستی کے ایام میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ لڑکیوں کی خرید و فروخت کی انتہائی گھناؤنی روایت بنی اسرائیل میں وسیع پیمانے پر رائج رہی ہے۔