یہود شہید مطہری کی کاوشوں میں - 4

یہودیوں کی جعل سازی کا شاہکار: عمالقہ کی داستان

یہودیوں نے بڑی چالاکی سے قرآن کی تنقید کو رد کرنے کے لئے اس طرح کے افسانے گھڑ لئے اور انہیں مسلمانوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ بعدازاں مسلمان بھی بیٹھ کر ایک دوسرے کو عوج بن عنق کی داستان سناتے تھے، عمالقہ کی غیر معمولی جسامت میں مبالغہ آرائیاں کرتے تھے؛ اور ہمیشہ اس حقیقت سے غافل رہے کہ یہودیوں نے ان افسانوں کے ذریعے قرآن کو جھٹلایا تھا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 

1۔ عمالقہ نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا، موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہتے تھے کہ ان لوگوں نے اس مقام مقدس پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے، آؤ سب مل کر جائیں اور بیت المقدس کو آزاد کرائیں، لیکن یہودی جان بچاتے تھے.
2. یہودی پیغمبر خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اور دشمن کی جنگ پر جانے سے جان بچانے کے لئے کہتے ہیں:
“۔۔۔ يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ؛ (سورہ مائدہ – آیت 24)
۔۔۔ اے موسیٰ! ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں؛ لہذا بس آپ جایئے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے؛ ہم [تو بس] یہیں بیٹھے ہوئے ہیں”۔
قرآن نے ان کو حقیقی معنوں میں رسوا کر دیا ہے۔ موسیٰ نے جتنا بھی ان سے کہا کہ غیرت کرو، کوئی ہنر دکھاؤ، اپنا حق دشمن سے لے لو، بولے: یہ [عمالقہ] بہت ہی طاقتور لوگ ہیں، ہم تو بس یہیں بیٹھے ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ساتھ مل کر چلئے، لڑ لیجئے، عمالقہ کو بیت المقدس سے نکال باہر کیجئے؛ جب کام مکمل ہو جائے، آکر ہمیں خبر کر لیجئے، تاکہ اس شہر میں داخل ہوجائیں!!
3۔ موسیٰ پھر بھی ان کے پاس آئے، ان سے بات چیت کی، اور فرمایا یہ تو کیا کہہ رہے ہو؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے، خدا پر توکل کرو، اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تم جہاد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا؛ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہ تھی اور بیت المقدس کا آزاد کرانا، ناممکن نہیں تھا، لیکن یہودیوں نے کہا: ہمیں نہیں جانا، ہمیں نہیں جانا!! [ہٹ دھرمی یہودیوں کی دوسری خصوصیت ہے]۔
4۔ یہاں قرآن کریم نے یہودیوں کو اس شکل میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے کہ ارشاد فرماتا ہے: یہ بڑے کاہل تھے، محنت کئے بغیر دوسروں سے کام کرنے کی توقع رکھتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بھی قدم اٹھائے بغیر اور کوئی قیمت ادا کئے بغیر بیت المقدس کو اپنانا چاہتے تھے، ہم ایسی بات نہیں کیا کرتے، مگر یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا: “آپ اپنے خدا کے ساتھ، چلے جایئے، لڑ لیجئے، اور بیت المقدس کی آزادی کے بعد ہمیں اطلاع دیجئے”؛ ہم اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے عرض کرتے ہیں کہ “آپ جو بھی فرمان دیں گے ہم اطاعت کریں گے، اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں تو بھی سمندر میں کودیں گے۔
5۔ یہودی سر جوڑ کر بیٹھے اور اس موضوع پر بحث و تمحیص کی کہ “ہم کیا کریں کہ مسلمین [تحریف شدہ] توریت کو قبول کریں اور سمجھے بوجھے بغیر قرآن کو جھٹلا دیں!
6۔ انھوں نے بیت المقدس پر قابض عمالقہ کے بارے میں افسانے گھڑ لئے اور کہا “یہ عمالقہ جو بیت المقدس میں تھے، کیا [عجیب] لوگ تھے؟ (یہودی یہ افسانے گھڑ کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہماری قوم و نسل کے لوگ جنگ کے لئے نہیں گئے تو وہ حق بجانب تھے، اور قرآن کریم نے – العیاذ باللہ – ویسے ہی ہم پر تنقید کی ہے، وہ لڑنے کی جگہ تھی ہی نہیں! کہا کہ] وہ لوگ جو وہاں تھے معمولی لوگ نہیں تھے۔
7۔ کہا کہ وہ جو وہاں تھے ایک عورت بنام “عُناق” کی اولاد میں سے تھے اور عُناق ایسی عورت تھی جس کے بیٹھنے کے لئے 10 جریب ضرب 10 جریب زمین درکار ہوتی تھی! اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام “عَوج” تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) – جن کا قد 40 ذراع (cubit) کے برابر تھا اور ان کے عصا کی لمبائی بھی 40 ذراع تھی – عصا لے کر اس کے قریب کھڑے ہو گئے، اور پھر 40 ذراع تک چھلانگ لگائی تو کہیں جاکر عوج کے پاؤں کے ٹخنے کو چھو سکے۔ ان میں سے کچھ لوگ بیت المقدس کے صحرا میں چلے گئے تھے؛ [فی الواقع] موسیٰ (علیہ السلام) نے کچھ لوگوں کو جاسوسی کے لئے بیت المقدس بھیجا تھا کہ دیکھ لیں وہ کیا کر رہے ہیں؛ واپس آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے: بیت المقدس میں ایسے لوگ تھے جن کا قد کئی فرسخ (leagues) ہے، وہ سمندر سے مچھلی پکڑ کر سورج کے سامنے پکڑ کر بھونتے اور کھاتے تھے۔ وہ صحرا میں اس طرح چلتے پھرتے تھے؛ ان میں سے ایک نے دیکھا کہ کچھ چیزیں زمین پر رینگ رہے ہیں (یعنی وہی لوگ جو موسیٰ (علیہ السلام) نے جاسوسی کے لئے بھجوائے تھے)، اس شخص نے ان میں سے کئی افراد کو پکڑ کر اپنی آستین میں ڈال دیا اور اپنے بادشاہ کے پاس گیا اور انہیں بادشاہ کے سامنے پھینک کر کہا: “یہ لوگ اس سرزمین کو ہم سے چھیننا چاہتے ہیں”۔
8۔ اگر حقیقتا بیت المقدس میں اس طرح کی نسل کے لوگ رہتے تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات – العیاذ باللہ – مہمل اور بے معنی تھی! اور وہ حق بجانب تھے جو کہہ رہے تھے کہ “یہ ہمارا کام نہیں ہے آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جا کر انہیں وہاں سے نکال باہر کیجئے، اس کے بعد ہم بھی آئیں گے! وہ معمولی لوگ تو تھے نہیں!
9۔ یہودیوں نے بڑی چالاکی سے قرآن کی تنقید کو رد کرنے کے لئے اس طرح کے افسانے گھڑ لئے اور انہیں مسلمانوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ بعدازاں مسلمان بھی بیٹھ کر ایک دوسرے کو عوج بن عنق کی داستان سناتے تھے، عمالقہ کی غیر معمولی جسامت میں مبالغہ آرائیاں کرتے تھے؛ اور ہمیشہ اس حقیقت سے غافل رہے کہ یہودیوں نے ان افسانوں کے ذریعے قرآن کو جھٹلایا تھا؛ مسلمان بھی اپنے آپ سے نہیں پوچھتے تھے کہ اگر یہودیوں کے یہ افسانے درست ہیں تو قرآن نے اس کے بارے میں ان [مسلمانوں] سے کیا فرمایا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد شہید مرتضی مطہری، سیری در سیرۂ نبوی (سیرت نبویہ میں ایک سفر)، ص138۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔