رجب طیب اردوغان اور اسماعیل ہنیہ کے درمیان مسئلہ فلسطین پر گفتگو
فلسطین کی تحریک حماس کے سربراہ اور ترکیہ کے صدر نے اپنی ٹیلی فونی گفتگو میں مسئلہ فلسطین پر تبادلہ خیال اور فلسطینی امنگوں کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
اپلوڈ ہو رہا ہے ...
شک نہیں کہ سخت ترین حالات میں بھی اگر ہم جزوی اختلافات کو بھلا کر ایک وسیع النظر پلیٹ فارم تیار کریں گے تو آئین کی بالادستی کے محور تلے ہم بہت سے ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری طرح ہی ستائے ہوئے ہیں اور ان کا دم بھی ہماری ہی طرح اس زہریلی فضا میں گھٹ رہا ہے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم من و تو کے جھگڑوں سے باہر نکل کر مل جل کر عظیم مقصد کے لئے آگے بڑھیں
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔
’’اوزی رابی‘‘ اس سینٹر کے سربراہ ہیں وہ تل ابیب یونیورسٹی میں مطالعات ایران کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقات مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور معاشروں کے حالات، ایران اور عرب ریاستوں کے تعلقات، مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافی مسائل جیسے موضوعات سے مخصوص ہیں۔
پروفیسر سامی الارین در حقیقت شمالی امریکہ میں جہاد اسلامی کے سربراہ تھے جنہیں امریکہ کی حکومت کی جانب سے خود کش حملوں کے الزام کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سالانہ سرمایہ اور حصص کو ضرورت مند افراد کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرتی ہے، اور اسکا مقصد یہودیوں کے درمیان زندگی گزارنے کی خواہش و چاہت کو ابھارنا اور نیویارک میں یہودی انجمنوں کو مضبو ط بنانا ہے چنانچہ اسکا سالانہ سرمایہ اور اسکے حصص سے ہونے والی آمدنی کا بجٹ انہیں دو کاموں سے مخصوص ہے ۔
مولف اپنی کتاب کی ایک اہم ترین فصل میں امریکہ کے زوال کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلسل نابودی کی طرف گامزن ہے۔
یہ کتاب جو ۱۴۴ صفحوں پر مشتمل ہے اس میں یاسر عرفات کی شخصیت کا تعارف، تحریک آزادی فلسطین میں ان کے کردار اور سیاسی رد عمل کو بخوبی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک اور مقالے “اسرائیل میں حقیقت سے جدائی و علیحدگی ایک فطری و طبیعی امر ہے ” میں اسرائیل کی صبرا و شتیلا میں جنایت و بربریت کے ساتھ ۲۲ دن کی جنگ کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس علاقے میں میڈیا پر صہیونی حکومت کی پابندیوں کو بیان کیا گیا ہے ۔
یہودی مسائل کے محقق جناب حجت الاسلام والمسلمین امیر عباس عبداللٰہی کہتے ہیں کہ ہیری پوٹر اس کہانی میں قوم یہود کا نجات دہندہ ہے، جس کی ذمہ داری معاشرے کی نجات ہے۔ یہ تصور یہودیوں کے درمیان رائج نجات دہندہ کے موضوع کی طرف پلٹتا ہے۔ ہمارے اسلامی تفکر میں بھی نجات دہندہ کا تفکر موجود ہے، لیکن وہ ایک الٰہی تصور ہے، جبکہ ہیری پوٹر ایک غیر الٰہی تصور سے جنم لیتا ہے اور غیر الٰہی راستے پر چل کر مبینہ طور پر معاشروں اور دنیا کو نجات دے گا!
ہیری پوٹر کے عنوان سے چھپنے والی پہلی چھ کتابوں کے ساڑھے بتیس کروڑ نسخے بک گئے تھے۔ یہ کتاب ان رنگوں سے خصوصی تعلق رکھتی ہے جنہیں مخملی انقلابات میں بروئے کار لایا جاتا ہے اور ذہنوں کو بنیادی تبدیلی کے لئے آمادہ کرتی ہے۔
بلاشبہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عالمی یوم قدس کا نام امام خمینی (رہ) نے رکھا تھا، یہ دن سال میں ایک دن نہیں ہے، بلکہ یہ پوری زندگی ہے اور بیت المقدس کو مسلمانوں کے سیاسی مرکز میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے، جب تک صیہونی حکومت قائم ہے، مسلمان نہ تو متحد ہوسکتے ہیں نہ ترقی کرسکتے ہیں، ہم ایک عظیم قوم ہیں، جس کے پاس بے پناہ صلاحیت ہے اور ایرانی عوام ایک وسیع ملک اور بہت زیادہ قدرتی اور انسانی وسائل کے مالک ہیں۔
لبنانی رکن پارلیمان کا کہنا تھا: الحاج قاسم مسئلۂ فلسطین پر عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے / وہ محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی حمایت کی راہ میں کسی بھی سرخ لکیر کو تسلیم نہیں کرتے تھے / انھوں نے شام کی جنگ میں روس کے شامل ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا / وہ محور مقاومت کا ستون تھے / شہدائے فتح (حاج قاسم اور حاج ابو مہدی المہندس) کی حکمت عملی بدستور نافذالعمل ہے
ڈاکٹر احمد کاظمی کا کہنا تھا: جمہوریہ آذربائیجان میں یہودیوں کو بسانا، صہیونی ریاست کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کے لئے دوسرا گھر تلاش کر رہے ہیں۔
ژاں پال سارتر (1) تقریبا تین عشروں تک پیرس کی فلسفی حیات پر مسلط رہا۔ وہ سنہ 1905ع میں پیدا ہؤا، سنہ 1974ع میں بیمار پڑ گیا اور اپنی بصارت کھو گیا؛ لیکن بڑھاپا ہی اس کے جسم کی تحلیل اور شدید بیماری اور سنہ 1980ع میں اس کی موت کا سبب نہ تھا!!
نو لبرل معیشت ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد ہے، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔
خطے کے ممالک میں اسرائیل کے نفوذ اور اثر و رسوخ میں ڈیوڈ مِیدان کا کردار اس قدر نمایاں تھا کہ بہت سے لوگ اسے نیتن یاہو کا اصل وزیر خارجہ کا عنوان دیتے تھے۔ بعض ذرائع نے اس کو خطے میں مصروف کار دہشت گردوں کے دادا کا لقب بھی دیا ہے۔
اے جی ٹی اور 4D کے ڈیزائن کردہ سسٹمز نے ٹینڈرز میں جمع کرائے گئے تین ابتدائی نمونوں میں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے؛ لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ بظاہر انہيں سپرد نہیں کیا گیا۔
عالمی سطح پر جدید سیکورٹی-انٹیلی جنس نظام کی تشکیل کے سالوں کے دوران ماتی کوچاوی نے اپنی توجہ ایسے شعبے پر مرکوز کرلی جس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد تیزی سے فروغ پایا اور آج یہ شعبہ بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے مقابلے کا میدان بن چکا ہے: سائبر اسپیس۔
ہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات امارات اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات کے باضابطہ اعلان سے کئی برس پہلے عمل میں لائے گئے ہیں، اور اسی بنا پر کوچاوی وہ پہلا اسرائیلی شخص سمجھا جاتا ہے جس نے خلیج فارس کے علاقے - بطور خاص متحدہ عرب امارات - میں ریشہ دوانی کی ہے اور اپنے لئے مضبوط پوزیشن کا انتظام کیا ہے۔
ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈاکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔
امریکی صہیونی تنظیم صرف صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے کام کرتی اور اس راہ میں پائے جانے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اس تنظیم کی ایک اہم سرگرمی اسرائیل پر حاکم نظام کی حمایت کے لیے دوسرے ممالک کے حکمرانوں میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔
مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
ادارہ "آئی این ایس ایس" سلامتی، دہشت گردی اور عسکری امور پر متعدد مقالات اور کتابیں انگریزی اور عبرانی زبانوں میں شائع کرتا ہے۔ ان میں ہی میں سے ایک اہم تحقیقی مقالہ ایران کے میزائل سسٹم کے بارے میں ہے جس کا عنوان "ایران کا میزائل سسٹم: بنیادی تسدیدی اوزار" ہے۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔
کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ نے پریس بریفنگ میں اعلان کر دیا کہ پاکستان کسی روسی بلاک میں نہیں جا رہا، ہمارے امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم بلاکس کی سیاست نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ اپنی نوکری بچانے کی فکر ہے شائد۔ اس لئے پاکستان کو توڑنے کے منصوبے بہرحال ہیں، لیکن پاکستان کے عوام ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یہ 70 کی دہائی نہیں، بلکہ 2023ء چل رہا ہے، نوجوان باشعور ہیں، اچھے بُرے کی تمیز بھی جانتے ہیں۔ یہ وطن ہماری دھرتی ماں ہے اور ماں کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے، ہم باہمی اتحاد سے دھرتی ماں کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ہوور نے ایران پر قابو پانے کی امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی کوششوں کے باوجود، ایران نے تیل کی برآمدات کو دو گنا کر دیا ہے، اور ایران ہی ہے جس نے خلیج فارس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے بھی اعتراف کیا ہے کہ تیل کی بڑی کمپنیاں ـ پابندیوں کے باوجود ـ ایرانی بجلی خرید رہے ہیں۔
اب بھارت، اسرائیل اور امریکہ، تینوں مل کر پاکستان میں کھیل رہے ہیں۔ تینوں کی سازشیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور ہم بڑے آرام سے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ گویا ہم پاکستان کے محافظ ہی پاکستان کے مخالف بن چکے ہیں۔ شنید ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں کچھ ادارے ملوث ہیں، اب تحقیقات ہوں گے، حقائق سامنے آئیں گے، مگر ہونا ہوانا کچھ نہیں، نشستن، گفتن، برخاستن ہوگا، سب روٹی شوٹی کھا کر گھروں کو چلیں جائیں گے، پاکستان وہیں گرتا، پڑتا، لڑکھڑاتا، چلتا رہے گا۔ اللہ ہمارے پاکستان کو محفوظ رکھے۔
شہید کبھی مرتا نہیں ہے۔ شہید خضر عدنان ہمیشہ حریت پسندوں کے دلوں میں آباد رہیں گے۔ جب جب شہید خضر عدنان کا نام آئے گا دنیا کے انسانوں کا خون پینے والے عالمی ادارے اپنے وجود سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ خضر عدنان کی شہادت فلسطین اور القدس شریف کی آزادی کے راستے کا ایک جُز ہے۔ عالمی اداروں کی اس قدر بے حسی اور مجرمانہ کردار کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارے استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی کرنے کی وجہ سے اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اس میں سرفہرست ہے۔
چین کی وساطت سے، ایران-سعودی سمجھوتے پر دستخطوں نے ایک دنیا کو حیران کر دیا اور تجزیہ کاروں کو اس اہم اور غیر متوقعہ واقعے کی مختلف جہتوں پر بحث و مباحثے کی طرف راغب کر دیا۔
نیتن یاہو کی سربراہی میں موجود صیہونی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر کے اپنے لئے بڑی سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ صیہونی رژیم مسجد اقصی پر جارحانہ اقدامات کے ذریعے ایک طرف مزاحمتی کاروائیاں روکنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف مسجد اقصی پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ وہی مقصد ہے جس کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونزم کانفرنس میں کیا گیا تھا اور اب نیتن یاہو کی شدت پسند کابینہ انتہاپسند یہودیوں کی مدد سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صہیونی اخبار اسرائیل ہایوم نے ایران-سعودی سمجھوتے کو جعلی صہیونی ریاست کے لئے باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ صہیونی ریاست ہمیشہ کے لئے خطے میں کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے چنانچہ خطے میں کسی بھی قسم کا اتحاد و استحکام یہودی ریاست کے مفادات کے لئے بری طرح نقصان دہ ہے۔
صہیونی ذرائع نے کچھ عرصے سے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بیرونی تنازعات میں شدت لانے کے لئے اقدامات پر تشہیری مہم کا آغاز کیا ہے، یہاں تک کہ آئی-12 ٹی وی چینل نے ـ امریکہ کی حمایت یا عدم حمایت کی صورت میں ـ بزعم خود، ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیلی حملے کے منظرنامے کا جائزہ لیا ہے۔ اس منظرنامے میں اس حملے کی تفصیلات اور اس کے لئے مناسب وقت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مقبوضہ علاقوں کے صہیونی غاصج جنگ کے تسلسل سے تھک کر اکتا چکے ہیں اور جنگی علاقوں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ جہاد اسلامی تحریک (حرکۃ الجہاد الاسلامی) کا نیا ہتھیار “اعصاب کی جنگ”۔ مقبوضہ فلسطین پر قابض صہیونی ان دنوں پریشانی، خوف و ہراس اور پناہ گاہوں میں چھپنے کے لئے […]
امریکہ کے انسانی حقوق کے دعووں کی طرح، واشنگٹن کا یہ دعویٰ کہ امریکہ دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے آگے ہے، ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسکا اعتراف امریکی سیاسیات کے ایک ممتاز پروفیسر نے بھی کیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور امریکی تھیوریسٹ اسٹیفن والٹ کہتے ہیں: ’’امریکہ اسوقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے سربراہی اجلاس (جمہوریت کے سربراہی اجلاس) کی قیادت کرسکے۔ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل "اکنامک انٹیلی جنس یونٹ" نے اس ملک کو "خراب جمہوریت" والے ممالک کے زمرے میں رکھا تھا۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی وزیر خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے خلاف واشنگٹن کی پابندیوں نے اس سے کہیں کم اپنا اثر دکھایا ہے، جتنا ہم چاہتے تھے۔ امریکی وزیر خزانہ جینیٹ یلین نے امریکی کانگریس کے ارکان کے اجلاس سے خطاب میں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لئے منعقد […]
موساد کے ہاتھوں ایران کے جوہری سائنسدانوں کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی اب بھی ایران کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈگن کے انداز کو موزوں سمجھتے ہیں۔
ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلہ اور اس سے وجود میں آنے والے مالی اور جانی نقصانات باعث افسوس ہیں، اور مرحومین کے لئے رحمت و رضوان اور زخمیوں کے لئے جلد از جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہیں، مگر غاصب یہودیوں نے اس زلزلے سے بھی اپنا الو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کی۔
نیتن یاہو کی سابقہ کارکردگی کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نئی حکومت میں فلسطینیوں پر دباؤ بڑھائے گا، فلسطینیوں کے مزید اراضی اور وسائل صہیونیوں کے ہاتھوں غارت ہونگے، نیتن یاہو علاقائی اور بین الاقوامی ضوابط کو پامال کرے گا اور علاقائی تناؤ میں بھی اضافہ ہوگا، بالنتیجہ، وہ اپنی حکومت کا چار سالہ دور مکمل نہیں کرسکے گا۔
امریکی تھنک ٹینک ہوور نے ایران پر قابو پانے کی امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی کوششوں کے باوجود، ایران نے تیل کی برآمدات کو دو گنا کر دیا ہے، اور ایران ہی ہے جس نے خلیج فارس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے بھی اعتراف کیا ہے کہ تیل کی بڑی کمپنیاں ـ پابندیوں کے باوجود ـ ایرانی بجلی خرید رہے ہیں۔
سنہ 2016ع میں سویٹز رلینڈ میں دنیا کی سب سے لمبی سرنگ کے افتتاح کے موقع پر، یورپی سربراہان کی موجودگی میں، ایک عجیب و غریب افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تقریب بے شمار شیطانی - ماسونی علامتوں سے بھرپور تھی۔ تقریب کے حصے میں "ابراہیمی ادیان و مذاہب کی موت" کا اعلان کیا گیا۔ نیز بافومیٹ (Baphomet) سمیت مختلف قسم کے شیطانی موجودات کی نمائش دکھائی گئی۔
پاکستان کے عوام کو ان سازشوں کے خلاف متحد ہونا ہوگا اور ایسی تمام غلامی کی سوچ کو دفن کرنا ہوگا، جو ہمارے وطن عزیز اور ہماری نسل نو کو تباہی اور بربادی کے دہانے تک لے جاتی ہو۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور بانیان پاکستان کی سوچ و فکر اور نظریات کہ جن میں سب سے اہم نظریہ پاکستان ہے، اس کی حفاظت اور دفاع کریں اور پاکستان میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ ان کے خلاف قانوی چارہ جوئی کے اقدامات عمل میں لا کر روک تھام کے لئے عملی کوشش کریں۔
کاش ہمارے گھروں میں جس طرح دیگر چیزوں کا بجٹ بنتا ہے شادی کا بجٹ بنتا ہے اسی طرح تعلیم کا ایک بجٹ معین ہو جو دیگر گھر کے اخراجات سے زیادہ ہو اس میں سے گھر میں خرچ نہ ہو تو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔
بیسویں صدی کا یہ عظیم الشان انقلاب نہ فقط ایران بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور مستضعف قوموں کے لئے اُمید بن کر ظہور پذیر ہوا ۔اس انقلاب نے ایک منصفانہ ،عادلانہ اور صالحانہ نظام تشکیل دیا ۔جس نظام میں تمام مظلوم اور مستضعف قوموں نے اپنا قسمت آزمایا اور الحمد اللہ از انقلاب تا ایں دم یہ صالحانہ نظام ،جابرانہ ،غیر منصفانہ،ظالمانہ اور طاغواتی نظام پر حاوی رہا
مقبوضہ فلسطین میں خانہ جنگی کا ماحول، صہیونیت کو درپیش شناختی چیلنج، ایک قوم کی تشیل میں "اسرائیل" کہلوانے والی ریاست کی شکست فاش اور تل ابیب میں سیاستدانوں کے درمیان جنگ صہیونی یہودی ریاست کی شکست و ریخت کے اصل اسباب ہیں؛ ایسی ریاست جو تجزیہ نگاروں کے بقول اس وقت "خود شکستگی" (Self-Destruction) کے مرحلے سے گذر رہی ہے۔
امریکہ، یورپ اور یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتے پوری طاقت سے میدان میں آئے اور ایران میں وسیع پیمانے پر بغاوت کے اسباب فراہم کرنے اور ایران کے اسلامی نظام کو پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
ان تمام صفات و خصوصیات کو دیکھتے ہوئے اور دنیا میں رائج فاسد نظام کی بنا پر موجودہ ظلم و جور کے پیش نظر عصر غیبت میں ہم سب کی اہم تربیتی ذمہ داریوں میں ایک یہ ہے کہ ایسی با صلاحیت نسل کی تربیت کی جائے جو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی آرزوں کی تکمیل کر سکے ، ماہ مبارک رمضان بہترین فرصت ہے اپنے اندر ان صفات کو بارور بنانے کے لئے جو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ساتھیوں کے صفات ہیں ۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد تو حید کے محکم اور مستحکم تصور پر رکھا گیا ہے۔لہذا اسلامی معاشرے کی اصل بنیاد عقیدۂ توحید پر ہی ہے۔ توحید یعنی تمام کائنات کاا یک اور واحدخالق و مالک جس نے تمام کائنات کو بنایا ہے۔ اور انسان کیلئے کائنات کی تمام اشیاء کو مسخر کردیا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ نہ صرف اپنے خالق کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ذریعے رابط قائم کرے بلکہ اپنے بہترین معاملات کی بنیاد پر اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ بھی مرتبط رہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار، سب سے زیادہ نماز روزہ کرنے والے تھے۔ آپ ہی سے لوگ نماز شب کی تعلیم لیتے تھے۔ آپ مسلسل دعاؤں سے وابستہ رہنے والے اور نوافل قائم کرنے والے تھے۔ کسی ایسے شخص کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو اوراد و اذکار کا اتنا پابند ہو کہ صفین کے میدان جنگ میں انتہائی خوفناک جنگ کی کالی رات ( لیلۃ الہریر ) میں مصلائے عبادت بچھا دے اور اس پر کھڑے ہو کر بڑے اطمینان سے نماز ادا کرے جب کہ تیر آپ کے سامنے آ آ کر گر رہے ہوں۔
جب انسان یہ سوچ کر اپنے عمل کو مستمر و پائدار بناتا ہے کہ میرا عمل محض میرا عمل نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے ہم ایک ایسے منجی بشریت کی ظہور کی فضا فراہم کر رہے ہیں جو آئے گا تو دنیا میں امن و امان قائم ہوگا دنیا ظلم و ستم سے نجات پا جائے گی عدل و انصاف کی حکومت ہوگی تو ظاہر ہے پھر اس سامنے اسکی ذات نہیں ہوتی وہ اپنے عمل کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی با عمل بنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس سے پورا معاشرہ ایک ساتھ اوپر اٹھتا ہے ۔
یہ جو ہمارا دور ہے ایک طرف تو یہ دنیاوی لذتوں کے دلدل میں دھنستے جانے کا دور ہے تو دوسری طرف میڈیا کے انحراف کا ایسے میں حیات طیبہ کی تلاش و جستجو انسان کو زمانے کی پلیدگیوں سے بچاتی ہے اس زندگی نے زمانے کی آلودگیوں کو مٹا کر بشریت کے لئے ایسی زندگی رقم کی ہے جس میں چین ہی چین ہے سکون ہی سکون ہے ۔
یقینا ہم اس مبارک مہینے میں جہاں اس بات کی کوشش کریں گے کہ اللہ سے خود کو نزدیک کریں وہیں یہ کوشش بھی ہونا چاہیے کہ اللہ کی مخلوق کے کام بھی آ سکیں اس لئے کہ خلق خدا کی خدمت کے بغیر خلق خدا کو فائدہ پہنچائے بغیر ہم خدا تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
یوم بعثت ایک بہترین موقع ہے اپنا محاسبہ کرنے کے لئے اس لئے کہ یہ وہ دن ہے جو انصاف و عدل کی تحریک کے آغاز کا دن ہے ، حریت و آزادی کے مزہ سے دنیا کو آشنا کرانے کا دن ہے تہذیب نفس و تطہیر باطن کی طرف رجوع کا دن ہے
بانی انقلاب نے اس دن کو ایام اللہ سے تعبیر کیا، اہل ایران کو یہ دن مبارک ہو، آج اس اسلامی انقلاب کو چوالیس سال ہوگئے، اسلام ناب کا پرچم سر بلند ہے اور سر بلند رہیگا، اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والوں کو اس انقلان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اس کی بنیادوں میں کیسے کیسے پاکیزہ نفوس کا پاک خون شامل ہے۔
بیسویں صدی کا یہ عظیم الشان انقلاب نہ فقط ایران بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور مستضعف قوموں کے لئے اُمید بن کر ظہور پذیر ہوا ۔اس انقلاب نے ایک منصفانہ ،عادلانہ اور صالحانہ نظام تشکیل دیا ۔جس نظام میں تمام مظلوم اور مستضعف قوموں نے اپنا قسمت آزمایا اور الحمد اللہ از انقلاب تا ایں دم یہ صالحانہ نظام ،جابرانہ ،غیر منصفانہ،ظالمانہ اور طاغواتی نظام پر حاوی رہا
امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "قلب" سے مراد وہی "عقل" ہے۔ اس تعریف اور مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں انقلاب اسلامی ایران دنیا میں عاقلانہ ترین اور کمترین شدت کا حامل انقلاب ہے۔ حال ہی میں انقلاب اسلامی کی 44 ویں سالگرہ کے موقع پر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے گذشتہ ہنگاموں میں ملوث افراد کیلئے عام معافی کا اعلان باپ کی طرح ان کی شفقت کو ظاہر کرتا ہے اور اسلامی جمہوریہ میں فیصلہ سازی کا عاقلانہ بنیادوں پر استوار ہونے کی علامت ہے۔