سید حسن نصرالله کی شہادت پرعراق اور شام میں 3 روزہ عام سوگ کا اعلان
حزب الله کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصرالله کی شہادت پرعراق اور شام میں 3 روزہ عام سوگ کا اعلان ہوا ہے۔
اپلوڈ ہو رہا ہے ...
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی صدر ایزاک ہرزوگ جلد ترکی کا دورہ کر سکتے ہیں۔
یمن کے نائب وزیر خارجہ نے بتایا کہ جارح سعودی اتحاد کے صنعاء کے خلاف ہوائی حملے میں 20 لوگ شہید ہو چکے ہیں جس میں ایک ہی کنبے کے سارے افراد شامل ہیں۔
فلسطین کے مقبوضہ جزیرہ نما النقب میں قابض اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن میں کل منگل کے روز 41 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
اردن کی وزارت خارجہ اور اسلامی تعاون تنظیم [او آئی سی] نے اپنے الگ الگ بیانات میں مقبوضہ بیت المقدس کے شیخ جراح محلے میں ایک فلسطینی خاندان کے گھر سے جبری بے دخلی کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، بینیٹ نے اپنے خط میں صہیونی ریاست کو مستقبل کے حملوں سے نمٹنے کے لئے "سیکیورٹی اور انٹیلی جنس امداد" کی پیشکش کی اور کہا کہ اس نے اپنی ریاست کے سلامتی کے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں اپنے ہم منصبوں کو ہر ممکن مدد فراہم کریں۔
صہیونی ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ تل ابیب ابوظہبی پر یمنی حملے کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ٹھکانوں پر اسی طرح کے حملے سے ہراساں ہے اور اس حملے کا جائزہ لے رہا ہے۔
یہ ایک اسرائیلی مزاحیہ گلوکارہ "نوعم شوستر" کے گانے کے بول تھے جو اس نے اسرائیل کی [بحیثیت ایک ملک] بحالی کے خواہاں اپنے اماراتی دوستوں کے لئے گایا ہے۔
سفارتی نقطہ نظر سے متحدہ عرب امارات نے ایک ملک کے طور پر جو نیا راستہ اختیار کیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کے امکانات کے لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل ایک "غیر معمولی شراکت دار" ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے امریکی اور سعودی حکام کی طرح گزشتہ روز ابوظہبی کے خلاف صنعا کی کامیاب کاروائی کی شدید مذمت کی۔
غزہ پر غاصب ریاست کی یلغار 276 دنوں سے جاری اور اس جارحیت کا دسواں مہینہ شروع ہوچکا ہے؛ اس عرصے سے غزاویوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ، غزہ کی معیشت بھی غاصب ریاست کے جنگی جرائم اور صنعتی اور معاشی مراکز اور بنیادی ڈھانچوں کی وسیع پیمانے پر ارادی تباہ کاری کا شکار ہے۔
یقینا اگر اسلامی اتحاد کے ہدف کو حاصل کر سکے ہوتے تو اپنی دولت اپنے ملکوں اور علاقے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتے، اور اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس مرحلے تک پہنچے ہوتے تو کیا ہوتا؟ مغربیوں اور ان کی آمدنیوں کا کیا بنتا؟ اور وہ جو اپنی بقاء کے لئے جنگوں کے محتاج ہیں، تو ان کی بقاء کی ضمانت کیونکر دی جاسکتی تھی؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاک ایران سرحدی علاقہ غیر مستحکم صورتحال سے دوچار ہے بلکہ ماضی میں بھی اسے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی کے چند واقعات کا خلاصہ، جن کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: حالیہ چھ ہفتوں کے دوران امریکہ سے ـ بالخصوص تہران میں سوئس سفارتخانے کے ذریعے ـ متعدد پیغامات موصول ہوئے ہیں / وہ 2006 ميں حزب اللہ کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن آج حزب اللہ کو جنگ کے پھیلاؤ کا سد باب کرنے کے لئے پیغامات ارسال کر رہے ہیں۔
ہسپتال لاشوں سے بھرے پڑے ہیں اور زخمی جنہیں علاج کی ضرورت ہے، ان کے علاج کے لیے مزید بستر نہیں ہیں، سینکڑوں چھوٹے بچے جنہوں نے ان حملوں کے دوران اپنے والدین کو کھو دیا ہے، ان کی دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود جو ان کے خلاف ہو رہے ہیں، غزہ کے باشندوں نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنا وطن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا اصرار ہے کہ وہ ماضی کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہتے۔
ژاں پال سارتر (1) تقریبا تین عشروں تک پیرس کی فلسفی حیات پر مسلط رہا۔ وہ سنہ 1905ع میں پیدا ہؤا، سنہ 1974ع میں بیمار پڑ گیا اور اپنی بصارت کھو گیا؛ لیکن بڑھاپا ہی اس کے جسم کی تحلیل اور شدید بیماری اور سنہ 1980ع میں اس کی موت کا سبب نہ تھا!!
نو لبرل معیشت ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد ہے، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔
خطے کے ممالک میں اسرائیل کے نفوذ اور اثر و رسوخ میں ڈیوڈ مِیدان کا کردار اس قدر نمایاں تھا کہ بہت سے لوگ اسے نیتن یاہو کا اصل وزیر خارجہ کا عنوان دیتے تھے۔ بعض ذرائع نے اس کو خطے میں مصروف کار دہشت گردوں کے دادا کا لقب بھی دیا ہے۔
اے جی ٹی اور 4D کے ڈیزائن کردہ سسٹمز نے ٹینڈرز میں جمع کرائے گئے تین ابتدائی نمونوں میں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے؛ لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ بظاہر انہيں سپرد نہیں کیا گیا۔
عالمی سطح پر جدید سیکورٹی-انٹیلی جنس نظام کی تشکیل کے سالوں کے دوران ماتی کوچاوی نے اپنی توجہ ایسے شعبے پر مرکوز کرلی جس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد تیزی سے فروغ پایا اور آج یہ شعبہ بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے مقابلے کا میدان بن چکا ہے: سائبر اسپیس۔
ہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات امارات اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات کے باضابطہ اعلان سے کئی برس پہلے عمل میں لائے گئے ہیں، اور اسی بنا پر کوچاوی وہ پہلا اسرائیلی شخص سمجھا جاتا ہے جس نے خلیج فارس کے علاقے - بطور خاص متحدہ عرب امارات - میں ریشہ دوانی کی ہے اور اپنے لئے مضبوط پوزیشن کا انتظام کیا ہے۔
ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈاکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔
امریکی صہیونی تنظیم صرف صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے کام کرتی اور اس راہ میں پائے جانے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اس تنظیم کی ایک اہم سرگرمی اسرائیل پر حاکم نظام کی حمایت کے لیے دوسرے ممالک کے حکمرانوں میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔
مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
ادارہ "آئی این ایس ایس" سلامتی، دہشت گردی اور عسکری امور پر متعدد مقالات اور کتابیں انگریزی اور عبرانی زبانوں میں شائع کرتا ہے۔ ان میں ہی میں سے ایک اہم تحقیقی مقالہ ایران کے میزائل سسٹم کے بارے میں ہے جس کا عنوان "ایران کا میزائل سسٹم: بنیادی تسدیدی اوزار" ہے۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔
کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔
فاران: گذشتہ ہفتے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تہران میں نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں مہمان کے طور پر آئے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر انہیں شہید کر دیا۔ اس افسوسناک واقعے […]
دودھ پلانے والی مائیں اپنے بچوں کو کافی دودھ نہیں دے سکتیں، جو بچوں کی نشوونما اور صحت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ دریں اثناء، اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی میں ایمبریوز کا سب سے بڑا زرخیزی کلینک تباہ کر دیا، جس میں مبینہ طور پر 3,000 ایمبریوز رکھے گئے تھے۔
امام خمینی ؒ کی فکر جہاں مزاحمتی تحریکوں کی طاقت کا باعث بن رہی ہے، وہاں عوامی بیداری میں بھی امام خمینی ؒ کی وہی فکر کارفرما ہے، جو انہوں نے ہمیشہ بیان کی اور اس پر عمل کیا۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ امام خمینی ؒ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے فلسطینی مزاحمت کو پیدا کیا، زندہ کیا اور جلا بخشی۔
ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم بدستور مذاکرات میں واپسی کے دعوے کر رہی ہے اور گذشتہ روز عبری ذرائع ابلاغ بھی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنی نئی تجاویز ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر کے سپرد کر دی ہیں۔
ایرانیوں اور عربوں کے درمیان تعلقات کے آغاز کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے کیونکہ وہ خطے کے استحکام اور سلامتی کو مستحکم کرنے اور علاقائی معاملات کو تناؤ اور تنازعات میں دھکیلنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک خطاب میں حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تہران نے امام خمینی رہ کے زمانے سے ہی فلسطین کاز کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا جس وجہ سے ایران کو بہت زیادہ سازشوں اور دشمن کی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔
کتنی عجیب بات ہے ایک طرف اپنی سرزمین کے لئے لڑنے والے جانباز و مجاہدین ہیں جنکی کاروائی کو دہشت گردانہ قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف انسانیت کے قاتل ہیں بچوں کے قاتل ہیں ، ایسے لوگ ہیں جنکے مظالم کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ بچوں کو قتل کر تے ہیں پھر سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل کرتے ہیں۔
یہ ایسے مسائل ہیں جن کا شکار ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ بھی نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ عمر رسیدہ امریکی صدر ہونے کا اعزاز ٹرمپ کو حاصل تھا جو بعد میں جوبائیڈن کو ملا۔ عام امریکی کی رائے میں امریکہ کا آنے والا صدر نوجوان ہونا چاہیئے۔ اس کے لیے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر کے سامنے بہت سے چیلنج بھوت بن کر کھڑے ہوں گے۔
صہیونی ذرائع نے کچھ عرصے سے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بیرونی تنازعات میں شدت لانے کے لئے اقدامات پر تشہیری مہم کا آغاز کیا ہے، یہاں تک کہ آئی-12 ٹی وی چینل نے ـ امریکہ کی حمایت یا عدم حمایت کی صورت میں ـ بزعم خود، ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیلی حملے کے منظرنامے کا جائزہ لیا ہے۔ اس منظرنامے میں اس حملے کی تفصیلات اور اس کے لئے مناسب وقت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مقبوضہ علاقوں کے صہیونی غاصج جنگ کے تسلسل سے تھک کر اکتا چکے ہیں اور جنگی علاقوں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ جہاد اسلامی تحریک (حرکۃ الجہاد الاسلامی) کا نیا ہتھیار “اعصاب کی جنگ”۔ مقبوضہ فلسطین پر قابض صہیونی ان دنوں پریشانی، خوف و ہراس اور پناہ گاہوں میں چھپنے کے لئے […]
امریکہ کے انسانی حقوق کے دعووں کی طرح، واشنگٹن کا یہ دعویٰ کہ امریکہ دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے آگے ہے، ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسکا اعتراف امریکی سیاسیات کے ایک ممتاز پروفیسر نے بھی کیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور امریکی تھیوریسٹ اسٹیفن والٹ کہتے ہیں: ’’امریکہ اسوقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے سربراہی اجلاس (جمہوریت کے سربراہی اجلاس) کی قیادت کرسکے۔ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل "اکنامک انٹیلی جنس یونٹ" نے اس ملک کو "خراب جمہوریت" والے ممالک کے زمرے میں رکھا تھا۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی وزیر خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے خلاف واشنگٹن کی پابندیوں نے اس سے کہیں کم اپنا اثر دکھایا ہے، جتنا ہم چاہتے تھے۔ امریکی وزیر خزانہ جینیٹ یلین نے امریکی کانگریس کے ارکان کے اجلاس سے خطاب میں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لئے منعقد […]
موساد کے ہاتھوں ایران کے جوہری سائنسدانوں کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی اب بھی ایران کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈگن کے انداز کو موزوں سمجھتے ہیں۔
صیہونی حکمرانوں نے غزہ جنگ میں شکست کھا کر بوکھلاہٹ میں حزب اللہ لبنان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ہے لیکن وہ 2006ء میں 33 روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان سے اپنی ذلت آمیز شکست کو بھول چکے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے الٹی ہجرت موجودہ حالات میں صیہونی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ صیہونی حکام غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ عملی طور پر سیاسی عدم استحکام، اقتصادی مسائل، سماجی جبر اور بدعنوانی کے بھنور میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک سیکورٹی تحقیقاتی ادارے کے بقول لکھا ہے کہ لبنان میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ لبنان برآمد ہونے والے کمیونیکیشن آلات میں تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ اس اخبار کے مطابق موساد نے ان پیجرز کو لبنان پہنچنے سے پہلے ہی اپنی تحویل میں لیا اور اس میں تخریب کاری کی۔
حالیہ واقعات اور لبنان کے حالات کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اللہ کی کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا اور شدت بھی۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب اسرائیل معصوم شہریوں کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچا کر اپنے ناپاک عزائم کا حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کے باوجود اس حکومت نے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
مختصر یہ کہ حوثی مجاہدین کی جانب سے اس شاندار اور فخرآمیز فوجی کاروائی نے صیہونی رژیم کی کمزوری عیاں کر دی ہے اور اب صیہونی رژیم شدید اسٹریٹجک، علاقائی اور جنگی ڈیڈلاک کا شکار ہو چکی ہے۔
یو ایس ایس رسل" ایک اور تباہ کن تھا، جو اب خطے سے نکل کر بحیرہ جنوبی چین میں داخل ہوا ہے۔ اس صورتحال میں اب صرف طیارہ بردار بحری جہاز USS ابراہم لنکن باقی رہ گیا ہے، جو خلیج عمان میں تعینات ہے۔
فاران: امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے صلح و مصالحت کا راستہ کیوں اپنایا اور امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ اور قتال کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ان دو معصوم اماموں کے عصری تقاضوں میں فرق کیا تھا؟ جواب: شک نہیں ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے کے تقاضے امام حسین (علیہ […]
رہبر انقلاب اسلامی نے امام رضا علیہ السلام کے سلسلہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو ایک مستحسن عمل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ’’ اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنا چاہیے اسلئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کی معرفت کے سلسلے میں کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں‘‘
مولائے کائنات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ "ہم توحید اور نبوت میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے جبکہ تم (یہودی) تو توحید میں ہی شک و تذبذب کا شکار ہوئے اور اپنے پیغمبر سے بھی مخالفت کی، یعنی نبوت پر بھی تمہارا کوئی یقین نہیں تھا اور ہمارے ہاں کے اختلاف اور تمہارے درمیان کے اختلاف میں بعد المشرقین ہے
شہید قاسم سلیمانی نے اپنے نام کا حق ادا کیا اور خود کو ٹکڑوں میں بکھیر کر امام عصر (عج) کو سنبھال لیا۔ بلاشبہ آج ہر دل میں موجود سردار سلیمانی کی محبت جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی ہی دعا ہے۔ شہید کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ حقیقی عاشق خدا و رسول تھے۔
اسلام میں ہرگز شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ نہیں پایا جاتا۔ شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں وحدت کلمہ کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ ہمارے ائمہ اطہار (ع) نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم آپس میں متحد رہیں اور باہمی اتحاد کی حفاظت کریں۔ جو بھی اس اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، وہ یا تو جاہل ہے یا خاص اہداف کا حامل ہے۔
حالیہ قرآن کریم کی اہانت کو دیکھ لیں دو طرح کے رد عمل ہمارے سامنے ہیں ایک عام مسلمانوں کا ایک کربلائی رد عمل کربلائی رد عمل ہی کی بنیاد پر ہمیں سوشل میڈیا میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں نے ہمارے مراجع کرام کو بھی نشانہ بنایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود اس بات کو جانتے ہیں اگر واقعی اس دور میں قرآنی تعلیمات پر کوئی عمل پیراں ہے تو یہیں فقہا ہیں۔
اگر یہ بات ارسطو افلاطون کے لئے کہہ سکتا ہے تو ہم سب کو بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ خاندان ہمارے لئے عزیز ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں ؟ قوم عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں کوئی ادارہ عزیز ہو اچھی بات ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اولاد عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اس لئے کہ جہاں ہم حقیقت کی راہ سے ہٹیں گے وہیں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا ۔
خواہشوں کے بپھرے سمندر کے سامنے ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو کشتی نجات میں سوار کر لیں وہ کشتی جو ہماری خواہشوں کو کنڑول کر کے ہمیں ساحل توحید سے ہمکنار کردے گی اور ہماری نجات یقینی ہو جائے گی ۔
انبیاء جو قوتوں اور صلاحیتوں کو متحرک اور منظم کرتے ہیں وہ صرف فرد کی تعمیر اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے ایسا کرتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں وہ انسانی سعادت وکامیابی کے لیے ہوتے ہیں، فرد کو بگاڑنا یا انسانی معاشرے کو برباد کرنا ن یہ چیز ناممکن و محال ہے ، یعنی ان یہ کوشش معاشرے اور فرد دونوں ہی کی تعمیر کے لئے ہوتی ہے خواہشوں کو ابھار کر وہ معاشرہ کو تباہ کریں ایسا محال ہے
فاران: میزان یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ شیطان ہماری سرگرمیوں اور عزاداریوں سے خوش ہوتا ہے یا ناراض۔ طاغوت ہماری سرگرمیوں سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض؟ عالمی استکبار کے ذرائع ابلاغ ہمارے پروگراموں سے خوش ہوتے ہیں یا نہیں؛ چنانچہ ہمیں عاشورا کو میزان و معیار قرار دینا چاہئے۔ حوزہ و جامعہ […]